یااللہ خیر!۔ میرے سامنے دو معصوم بہن بھائیوں کی تصویر ہے جن کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے‘ دونوں بچے ایمبولینس میں بیٹھے ہسپتال جا رہے ہیں‘ دستانے پہنے نو دس سال عمر کے ان معصوم بہن بھائی نے منہ پر ماسک لگا رکھا ہے ۔سامنے کپڑوں کا بیگ اور ایک ہاتھ میں کتابوں کا بستہ ہے۔ بھائی کے ہاتھ میں ایک کتاب اور قرآن مجید کا نسخہ ہے۔ شفیق ماں نے بچوں کو کس طرح تیار کر کے اپنے ہاتھوں ایمبولینس میں بٹھایا اور ہسپتال روانہ کیا ہو گا؟ یہ سوچ کر سچی بات ہے مجھے جھرجھری آ گئی‘ ہر صاحب اولاد کو آئے گی کہ یہ ظالم مرض ہی ایسا ہے‘ بچوں کے لباس اور شکل و صورت سے صاف لگتا ہے کہ کھاتے پیتے اور تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق ہے‘ چہرے سے خوف ہویدا ہے‘ سہمے ہوئے بچے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے نہ ایمبولینس میں موجود کسی شخص سے آنکھ ملا رہے ہیں۔ بچوں کو ہسپتال روانہ کرنے کے بعد ماں پر کیا بیت رہی ہو گی‘ وہ کن سوچوں بلکہ وسوسوں میں گم ہوگی‘ میں اور آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں‘ مائیں بچوں کو سکول یا کسی رشتہ دار کے گھر اکیلے بھیجنے کے بعد واپسی تک بے چین و مضطرب رہتی ہیں ‘یہ تو کورونا کے شکار پھول جیسے بچوں کو ہسپتال بھیجنے کا معاملہ ہے۔ ایسا موذی مرض جس نے امریکہ اور برطانیہ کے طبی نظام کو بے بس کر دیا‘ ہسپتال میں ماں ہر پانچ دس منٹ بعد بچوں سے کھانے ‘ پینے کا پوچھ سکتی ہے نہ انہیں پیار سے ڈانٹ ڈپٹ سکے گی اورنہ بچے شرارتوں شور شرابے کے بعد ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر منانے کے قابل‘ ظالم مرض کا یہی سنگدلانہ پہلو ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ دو بچے کورونا کی لپیٹ میں کیسے آئے؟۔ خبر کے مطابق ان کے والد کا ٹیسٹ پازیٹو آیا اور پھر ان بچوں میں کورونا کی تشخیص ہوئی‘ گویا والد کی معمولی بے احتیاطی اور غفلت نے پورے گھرانے کو بیماری اور اس سے بڑھ کر خوفناک اذیت میں مبتلا کر دیا‘ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے‘ یہ بہن بھائی چپ چاپ‘ دلگیر و افسردہ ہسپتال گئے‘ خدا کرے کہ ہنستے کھیلتے‘ ایک دوسرے سے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے گھر واپس آئیں اور ماں کے آنسو پونچھیں‘ جو ان کی بخیریت واپسی پر خوشی اور مسرت کے عالم میں اس کی آنکھوں سے چھلکیں گے‘ صرف یہی دو بچّے کیوں؟ ہسپتال میں سارے زیر علاج بچوں کے بارے میں یہی دعا اور خواہش کرنی چاہیے کہ ان کی مائیں بھی بخوشی واپسی کی منتظر ہیں۔ راوی ٹائون کی ڈی ڈی ایچ او ڈاکٹر نادیہ نے بتایا کہ بچوں کی ماں انہیں ہسپتال بھیجتے ہوئے اشکبار ہو گئی‘ ہونا ہی تھا‘ یہی تو ماں کی ممتا ہے‘ اسی بنا پر رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ جنت ماں کے قدموں میں ہے‘‘ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان سے اپنی محبت کو ستر مائوں کی محبت کے برابر قرار دیا‘ اُمید کرنی چاہیے کہ بچوں کی حالت سدھرنے پر انہیں اپنے گھر میں رہنے کی اجازت مل جائے گی اور وہ تنہائی کا بقیہ عرصہ گھر میں گزاریں گے کہ ان کا ہسپتال رہنا خطرناک ہے‘ ان بچوں سے زیادہ ماں کے لئے۔ یہ واقعہ ان تمام لوگوں کے لئے چشم کشا ہے جو لاک ڈائون کی پابندی پر آمادہ ہیں نہ اپنے فضول مشاغل ترک کرنے پر تیار۔ بلاوجہ ‘ بے مقصد گھروں سے نکلنا‘ اپنے ہی طرح کے لاپروا دوستوں سے ملنا جلنا‘ گپیں ہانکنا اور آوارہ گردی کرنا‘ ماسک اور دستانوں کا استعمال نہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی عادت‘ ملنے والوں میں سے کون کورونا کا شکار ہے اور کس نے دن میں کتنی بار ‘ کسی مریض سے مصافحہ و معانقہ کیا؟۔ جاننے کی خواہش نہ نتائج کی پروا‘ یہ بے احتیاطی اور غیر ذمہ داری خاندان‘ بیوی بچوں اور دیگر قریبی پیاروں کے لئے کتنی بڑی مصیبت اور آزمائش بن سکتی ہے؟ کوئی سوچتا نہیں‘ ان معصوم بچوں کے باپ نے بھی سوچا نہ ہو گا۔ لوگ لاک ڈائون سے تنگ ‘ آزادی اور معمولات کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں‘ مگر یہ لاک ڈائون کتنی بڑی نعمت ہے ‘راوی ٹائون کے ان بچوں اور ان کے والدین بالخصوص والدہ سے کوئی پوچھے‘ جو اگلے چودہ پندرہ دن تک‘ جب تک بچوں کا ٹیسٹ نیگٹیو نہیں آتا‘ وسوسوں کی سولی پر لٹکی رہے گی۔ انشاء اللہ یہ بچے صحت یاب ہوں گے اور ماں باپ کی پریشانی‘ پشیمانی دور ہو گی‘ لیکن یہ واقعہ ان تمام لوگوں کے لئے سبق آموز ہے جو معمولی بے احتیاطی سے اپنے ماں باپ‘ بہن بھائیوں‘ بیوی بچوں کی صحت اور زندگی کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں۔ حکومت لاک ڈائون میں نرمی کا سوچ رہی ہے‘ اس بات کو مگر یقینی بنانا ضروری ہے کہ اس نرمی کا فائدہ اٹھا کر ہم ایک بار پھر انہی بے ہنگم مشاغل کی طرف نہ لوٹ جائیں جن کے باعث کورونا عالم انسانیت کے لئے خطرہ بنا اور اب تک ایک لاکھ سے زائد جیتے جاگتے انسان اس کی بھینٹ چڑھ چکے۔کورونا کا ابھی زور ٹوٹا نہ پاکستان میں پیک ٹائم شروع ہو‘عام شہریوں کے ساتھ اب ڈاکٹر برادری اور پیرامیڈیکل سٹاف بھی اس کے نشانہ پر ہے جبکہ لوکل ٹرانسمیشن کی شرح بھی پچاس فیصد سے بڑھ گئی جو الارمنگ ہے‘ معمولی سی بے تدبیری اور نرمی امریکہ‘ برطانیہ‘ اٹلی ‘ ایران اور سپین جیسی صورت حال کا سبب بن سکتی ہے‘ زود فراموش ہم پرلے درجے کے ہیں‘ بے احتیاطی ہمارے مزاج کا حصہ ہے اور معمولی فائدے کے لالچ میں بڑا نقصان اٹھا لیتے ہیں اور ملال نہیں ہوتا‘ کورونا نے حملہ کیا تو معاشرے کو پتہ چلا بلکہ ہوش آیاکہ ہسپتالوں‘ طبی سازو سامان اور حفظان صحت کے اُصولوں کی کیا اہمیت ہے ورنہ ہم جہازی سائز کی سڑکوں‘ انڈر پاسز‘ فلائی اوورز اور سربفلک عمارتوں کے سحر میں گرفتار تعلیم و صحت کی افادیت بیان کرنے والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ قدرت نے سنبھلنے کا موقع دیا ہے‘ خدا کرے کہ ہم موقع غنیمت جان کر سدھر جائیں‘ دوسروں نہیں تو اپنی اور اپنے پیاروں کی جان اور صحت کی فکرکرنے لگیں۔یااللہ خیر! جان ہے تو جہان ہے۔