ایک عام سطح کی مہذب ریاست کے حکمران اور ادارے ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ ریاست کے دستیاب وسائل تقسیم کرتے وقت شہریوں کے بنیادی حقوق کا خیال رکھا جائے۔ جو شہری جتنی قربانی قومی مفاد کے لئے دے رہا ہے، اسے اس قربانی کا بدلا دیا جائے تاکہ وہ اپنی شہریت پر فخر کرسکے۔مگر ان حکمرانوں اور اداروں کی عقل کا ماتم کیسے کیا جائے جو قیامِ پاکستان سے آج تک ریاستی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ،علاقائی عصبیت،اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان عالمی استعمار کی اس خفیہ جنگ کا پہلا نشانہ ہے۔ اپنے شہریوں کو ان کے جائز حقوق اور مراعات دیے بغیر اس خفیہ جنگ میں مکمل کامیابی ممکن نہیں۔ افسوس کہ پاکستان کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور مقتدر اداروں نے مشرقی پاکستان کے سقوط سے بھی سبق نہیں سیکھااور بلوچیوں کو ان کے جائزحقوق سے محروم کر کے جس داخلی انتشار کا شکارکیا اس پر لمبی چوڑی بحث گنجائش نہیں۔ آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والی بجلی کی پیداور کا صرف پانچ فی صدی اگر آزاد کشمیر کو دے دیا جائے تو یہ خطہ لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے مستقل نجات پا سکتا ہے۔ ہمارے والدین ہجرت کرکے اس آزاد خطے میں آبادہوئے تھے اور انھوں نے اسے اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھ کر زندگی گزار دی۔آزاد ریاست جموں کشمیر کو جس بے دردی کے ساتھ قبیلوں اور سیاسی گروہ بندیوں میں تقسیم کیا گیا ہے اس کے نتائج بھی ویسے ہی نکلنے شروع ہوچکے ہیں۔ بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019کو مقبوضہ ریاست کے اسٹیٹس میں تبدیلی پر کچھ نہ کرسکا۔ریاست کی حکومت کو اپنی آزادی سے اپنا کیس پیش کرنے میں رکاوٹ رہا۔پاکستان کے حکمرانوں سے شکوہ اپنی جگہ بجا ہے۔یہ اہل کشمیر کی امنگوں پر پورا نہیں اترے۔یہ بات بھی کسی شرمندگی سے کم نہیں کہ ہماری کشمیری سیاست دانوں نے بھی کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی۔وفاق میں چاہے جس کی بھی حکومت ہو کشمیر قیادت ووٹرز کا رخ اس جانب موڑدیتی ہے۔ریاست کے مفاد کی بجائے اپنے ذاتی اور قبیلائی مفادات کو پہلی ترجیح کے طور پر رکھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جوں ہی وفاق میں اقتدارڈولنے لگتا ہے،آزادکشمیر میں وفاداریاں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔حالیہ ’’تبدیلی‘‘ بھی اسی عادت کا حصہ ہے۔ہمارے اس قبیل کے سیاست کاروں کی وجہ سے ریاست کے بنیادی انسانی حقوق بھی عنقا ہوتے جارہے ہیں۔بیس کیمپ کی حکومت کا قیام جن مقاصد کے حصول کے لیے عمل میں آیا تھا،ہم نے ان مقاصد کو پس پشت ڈال دیا۔نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ہمارے ممبران اسمبلی،صدر وزیراعظم اور باقی لائو لشکر کو اس بات کی پروا تک نہیں کہ ہماری ریاست کابڑا حصہ جبر کا شکار ہے۔دوسری جانب پاکستانی حکمرانوں کارویہ آزادکشمیر کے ساتھ غیر منصفانہ ہے۔وفاق میں کشمیرکے لیے طے شدہ بجٹ بھی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ریلیز کیا جاتاہے۔پاکستان کے حکمران ریاست کو بجلی کی پیداوار کا پانچ فی صد بھی دینے کو تیار نہیں جب کہ آزادکشمیر سے پیدا ہونے والی بجلی اسلام آباد کے ایوانوں مسلسل روشن رکھتی ہے۔ اس صورت حال میںآزادکشمیر کے نوجوانوں میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے جو کسی طور بھی مناسب نہیں،اس پر مستزاد یہ کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھی اس عمل سے خوش نہیںہیں ۔وہ لوگ کہ جنہوں نے پون صدی پاکستان کی بقا کی جنگ لڑتے اور لہو پیش کرتے گزار دی ہے۔وہ متذبذب ہیں کہ مستقبل میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟وہ اب کہنے لگے ہیں کہ جس ملک کے لیڈراپنے ویران پہاڑوں میں کالاباغ ڈیم بننے نہیں دیتے ان کے لئے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کو دریاؤں کے پانی سے محروم کر دیا گیا ہے ۔کشمیری پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں مگر ان کے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں.؟اگر پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں ، سیاسی قائدین اور مقتدر اداروں میںمحب وطن ان پریشانیوں کا حل نکالیں۔ اس سے قبل کہ نفرت کے یہ بیج برگ وبار لائیں ، آزاد خطے کی افرادی قوت کو احساسں محرومی کا احساس دلا کر عالمی استعمار کا کوئی گماشتہ استعمال کر ے یا پاکستان کے لئے نیا محاذ کھول لے۔آزاد کشمیر کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو کبھی بھی آزاد کشمیر ، مسئلہ کشمیر اور نوجوان نسل کے مسائل اور پاکستان مخالف ٹرینڈ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔کیونکہ انھیں آزاد کشمیر میں صرف اسمبلی ممبر یا مالی وسائل سے لطف اندوز اور اپنا حقِ حکمرانی دکھانے کے سوا کسی اور بات سے غرض نہیں۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ یہ لوگ مظفرآباد میںبہت کم اور اسلام آبادبہت زیادہ وقت گزار کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہماری دینی اور پاکستانی شناخت کاتقاضہ ہے کہ ہم بیس کیمپ کو منزل کی طرف گامزن کریں۔نئی نسل کے شعور سے استفادہ کریں اورہمیشہ سے ذلت کی راہ پر گامزن نام نہاد قیادت سے چھٹکارہ پائیں۔وہ قیادت جو مدت دراز سے اپنے قبیلوں اور گروہی تعصبات کے لیے عوام کا خون چوستی رہی ہے۔جس طرح بلوچوں کے حق کی بات کی جاتی ہے اسی طرح کشمیر کے حقوق کی بات کرنا اس قیادت کافرض تھا۔مظلوم کشمیریوں کو جبر سے نجات دلانے کے لیے اسی قیادت نے حق بات کہنی تھی اور سری نگر کی جانب چلنا تھا۔یہ بات شاید جذباتی لگتی ہو لیکن اب پون صدی بعد بھی اسے جذباتی کہا جائے گا تو یہ انصاف نہیں ہو گا۔وقت ہے کہ ہماری کشمیری قیادت اپنا وقار بحال کرے اور اپنا کیس خود لڑے۔پاکستان اس وقت بے شمار مسائل کا شکار ہے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کے عوام کشمیریوں کی پشت پر نہیںہیں۔کشمیریوں کو بہرحال اپنا کیس خود لڑنا ہو گا،اور اس کے لیے پاکستان کی سفارتی مدد حاصل کی جانی چاہیے۔اب وقت ہے کہ نئی نسل کے درمیان نفرتوں کے بیج بونے والوں کا راستہ روکا جائے۔