آج کل حکمران اتحاد پی ڈی ایم بڑے جوش وخروش سے اعلیٰ عدلیہ خاص کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب عطا بندیال کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔ اس میں مسلم لیگ ن کے رہنما پیش پیش ہیں۔ ویسے مجھے تو اس پر کبھی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ لاہور میں رہتے ہوئے اپنے ستائیس سالہ صحافتی تجربے کی بنیاد پر اچھی طرح علم ہے کہ ن لیگی ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ ان کا دیرینہ طریقہ کار ہے کہ پہلے عدلیہ کو مینیج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اگر ناکام ہوجائیں تو پھر حملہ کر دیا ۔ ان کے حملے بھی ہمیشہ ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں،انگریزی محاورے کے مطابق Below The Belt۔ اس بار مہم مزید شدید اور تلخی آمیز ہوچکی ہے، سب سے بڑی وجہ دو دن پہلے سابق وزیراعظم عمران خان کو سپریم کورٹ اور پھرہائی کورٹ سے ملنے والا ریلیف ہے۔ عام ن لیگی رہنما تو ایک طرف خود وزیراعظم نے بھی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عدلیہ پر سخت تنقید کی۔ پاکستان کی تاریخ میں شائد پہلی بار کسی کابینہ اجلاس کو براہ راست تمام چینلز پر نشر کیا گیا۔ وجہ یہی تھی کہ اس تنقید کو پورے ملک میں براہ راست پہنچایا جائے۔وزیراعظم شہبا ز شریف کی تقریر، مریم نواز شریف کے ٹوئٹس، مریم اورنگ زیب کی پریس کانفرنس اور خواجہ آصف کی بازاری لب ولہجے میں ججوں کے خلاف کی گئی گفتگو دراصل پی ڈی ایم کی صفوں میں موجود شدید انتشار اور فرسٹریشن کی علامت ہے۔ پی ڈی ایم میں موجود ن لیگ اور جے یوآئی کا مورال لگتاہے خاصا لو ہوگیا ہے، جسے بلند کرنے کی کوشش میں انہوں نے غیر ضروری جارحیت اپنا لی ہے۔ مولانافضل الرحمن بھی سپریم کورٹ اور چیف جسٹس پر حملہ آور ہوئے ہیں، وہ بھی نہایت عامیانہ انداز میں ایک گھٹیا ذاتی حملے کے ساتھ۔ مولانا ایک دینی سکالر ہونے کے دعوے دار ہیں، ان کے مداحین یہ بات کہتے تھکتے نہیں کہ مولانا پانچ لاکھ علما کے نمائندہ ہیں، اگر ایسی بات ہے تو مولانا کو اس شائستگی، لحاظ اور وضع داری کا مظاہرہ بھی کرنا چاہیے جو دین ہمیں سکھاتا ہے۔ مولانا کو یہ توفیق تو ہوئی نہیں کہ ہائی کورٹ سے عمران خان کو ناجائز طور پر اٹھانے کی مذمت کر سکیں۔ ا سکے لئے جو اخلاقی جرات درکار ہے، لگتا ہے اس کا عزت مآب مولانا فضل الرحمن میں فقدان ہے۔ جب اس صریحاً ناانصافی اور ناجائز حرکت کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا، تب مولانا شدید مضطرب ہوگئے۔ اپنی طرف سے تو وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ عمران خان کی کہانی ختم ہوگئی، وہ اگلے کئی مہینوں تک جیل میں بند رہے گا اور باہر پی ڈی ایم حکومت اپنے اللے تللے جاری رکھے گی ۔ عمران خان کی ضمانت نے مولانا کو اتنا بڑا دھچکا پہنچایا کہ وہ بوکھلا کر سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کر بیٹھے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ریڈزون میں دھرنا کیسے دے سکتے ہیں؟ اگر آج انہوں نے دھرنا دے دیا تو پھرکل کو تحریک انصاف کو ریڈزون میں دھرنا دینے سے کیسے روک سکیں گے۔ میرے نزدیک معاملہ بڑا صاف اور سیدھا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری ایک الگ معاملہ ہے اور اس پر آنے والا ردعمل الگ۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعدان کی جماعت کی جانب سے دئیے جانے والے ردعمل میں زیادتی ہوئی۔ توڑپھوڑ اور گھیرائو جلائو والی کیفیت رہی جو کہ غیر مشروط مذمت کی مستحق ہے۔ جس جس نے یہ زیادتی کی، کورکمانڈر ہائوس لاہور اور ریڈیو پاکستان پشاور جلایا، دیگر املاک کو آتش زدگی کا نشانہ بنایا، ان سب کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ ایک بار جب ایسے لوگوں کو سزائیں ملیں گی تو آئندہ کوئی ایسا کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ2014 کے دھرنے کے دوران پی ٹی وی اسلام آباد میں گھسنے والے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی ہوتی تو شائد نو مئی کو توڑ پھوڑ کے واقعات اس طرح نہ ہوسکتے۔ ہمیں غلط کو غلط ہی کہنا چاہیے ۔ اس ردعمل کا مگر یہ قطعی مطلب نہیں کہ تحریک انصاف ایک دہشت گرد جماعت ہے یا یہ شدت پسندوں پر مشتمل ہے۔ عمران خان کو بھی دہشت گرد ، مجرم ، شدت پسند وغیرہ کہنے والے غلطی پر ہیں۔ عمران خان پاکستان کے اہم ترین سیاستدان اور سابق وزیراعظم ہیں۔ اس کے قوی امکانات ہیں کہ اگر ملک میں الیکشن ہوں ، جیسا کہ اگلے تین ماہ بعد اسمبلی کی مدت پوری ہونے پر کرانے پڑیں گے، تو عمران خان الیکشن جیت کر پھر سے وزیراعظم بن جائیں ۔ عمران خان نے 2018 ء کے عام انتخابات میں ایک کروڑ چونسٹھ لاکھ ووٹ لئے تھے۔آج مسلم لیگ ن کے حامی اخبارنویس، تجزیہ کار اور عوامی سروے کرنے والے متفق ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت دوہزار اٹھارہ سے بہت زیادہ ہوچکی ہے۔ تمام سروے رپورٹوں میں پنجاب اور کے پی میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی کی امید ظاہر کی گئی ۔ملک میں رجسٹرڈ ووٹر ویسے ہی بڑھ چکا ہے۔ اس لحاظ سے عمران خان کم وبیش ڈھائی پونے تین کروڑ کا ووٹ بینک رکھتا ہے۔ ایسے شخص کو دہشت گرد کہنا تو اپنے پورے جمہوری، سیاسی نظام پر سوالیہ نشان لگانے کے مترادف ہے۔ یہ عوامی شعور اور ان کی نمائندگی پر بھی شک کرنا ہے۔ عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے جس طرح اٹھایا گیا ،وہ صریحاً غلط، ناجائز اورظلم تھا۔ اس کی کوئی مثال پہلے نہیں ملتی کہ ایک سیاستدان عدالت حاضرہوا ہو اور اسے وہاں سے اٹھا لیا جائے۔ جس طرح اسے اٹھایا گیا، اس اقدام نے غلط اور غیر قانونی قرار پانا ہی تھا۔ اسی روز بعض عمران مخالف تجربہ کار صحافیوں نے ٹی وی چینلز پر کہہ دیا تھا کہ سپریم کورٹ سے یہ اقدام ریورس ہوجائے گا۔وہی ہوا۔سپریم کورٹ کے ججوں کے پاس اور آپشن کیا تھی؟ناجائز کام کو غلط اور غیر قانونی ہی کہنا تھا۔ ایک عجیب وغریب تنقید یہ کی جا رہی ہے کہ چیف جسٹس نے عمران خان کے لئے خیرمقدمی جملہ کیوں بولا؟ یہ نہایت کمزور اور بوگس استدلال ہے۔ نائس ٹو سی یو(آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی) ایک عام رسمی جملہ ہے ، جسے روٹین میں ہم بول دیتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عمران خان کو دیکھنے والوں کا دل بھنگڑے ڈالنے لگا تھا؟ نہیں ۔ ایسا نہیں ہوتا بھئی۔ ایک شخص سابق وزیراعظم ، ملک کی اہم ترین جماعت کا سربراہ ہے، وہ کوئی دہشت گرد، قاتل یا ریپسٹ نہیں، کسی فوجداری کیس میں نہیں آیا۔ ایک دن پہلے اسے ہائی کورٹ سے بڑے ظالمانہ انداز میںگھسیٹ کرلے جایا گیا۔ ریلیف کے لئے وہ بطور سائل سپریم کورٹ آیا ہے۔ عمران خان کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس زیرسماعت نہیں تھا، وہ بطور ملزم نہیں بطور سائل عدالت آیا تھا، ریلیف کے لئے ۔ اگر فاضل جج نے ایک رسمی جملہ بول دیا تو اس میں کیا برائی ہے؟ پچھلے چند برسوں سے عدالتوں کی کارروائی بہت تفصیل سے میڈیا اور ویب سائٹس میں رپورٹ ہوتی ہے۔اسے پڑھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ دوران سماعت سنجیدہ بحثوں کے ساتھ بہت سی گپ شپ بھی چلتی رہتی ہے۔ نعیم بخاری جیسے وکلا تو ججوں کے ساتھ ہلکا پھلکا مذاق بھی کر لیتے ہیں۔کئی بار جج صاحبان کسی اہم کیس میںاہم رہنما کوروسٹرم پر بلا کر اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پچھلے سال جب قاسم سوری کی اسمبلی رولنگ والا معاملہ چل رہا تھا توموجودہ چیف جسٹس کی عدالت میں بلاول بھٹو بھی پیش ہوئے، وہ بھی بطور سائل وہاں آئے تھے ۔ چیف جسٹس نے بلاول بھٹو کو روسٹرم پر بلا کر نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ آپ کی فیملی کی جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں ہیں، ہمیں اس کا احترام ہے۔ اسی سماعت میں شہباز شریف سے بھی گفتگو کی گئی ۔ کیا تب تحریک انصاف یہ اعتراض کرتی کہ چونکہ بلاول بھٹو کی فیملی کی قربانیوں کا ذکر کیا گیا ہے تو یہ جج کے متعصب ہونے کی دلیل ہے؟ اہم ترین امر جس کا پی ڈی ایم والے دانستہ ذکر نہیں کر رہے کہ سپریم کورٹ نے تو عمران خان کو اگلے روز اسلام آباد ہائی کورٹ بھیجنے کے لئے پابند کیا بلکہ انہیں اپنے گھربنی گالہ بھی نہیں جانے دیا گیا۔اگر ہائی کورٹ عمران خان کی ضمانت مسترد کر دیتی تو وہ فوری گرفتار ہوجاتے۔ خواجہ آصف، مولانا فضل الرحمن اور ان کے دیگر ساتھی چیف جسٹس پرذاتی حملے اور فضول طنزیہ جملے کس رہے ہیں ، تو کیایہ ریلیف دے کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان بھی ان کی نظر میں مشکوک اور مجرم بن گئے؟کیا ہر وہ فورم جہاں سے تحریک انصاف کو ریلیف ملے گا، وہ غلط ہوگا۔ یہی ہائی کورٹس ہیں جہاں سے نواز شریف کو ریلیف ملا اور وہ کسی ٹھوس یقین دہانی کے بغیر باہر جانے میں کامیاب ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ سے سابق دور میں ن لیگی رہنمائوں کو بار بار ریلیف ملا۔ حمزہ شہباز کی تو سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اتوار کے دن ضمانت لی تھی اور وہ بھی بلینکٹ ضمانت تھی کہ نیب یا پولیس کسی بھی دوسرے کیس میں حمزہ کو نہیں پکڑے گی۔ کل ہائی کورٹ کا ریلیف ٹھیک تھا کیونکہ شریف خاندان کو فائدہ پہنچا، آج ہائی کورٹس غلط ہیں کیونکہ عمران خان کو ریلیف مل رہا ہے۔ ’’میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو‘‘ غالباًاسے ہی کہتے ہیں۔ سیاسی منافقت اور دوغلاپن جیسے نسبتاً سخت الفاظ بھی اسی صورتحال میں صادق آتے ہیں۔