پشاور(نیوز رپورٹر،خبر نگار،این این آئی،نیٹ نیوز)جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کسی کا باپ ہم پر مقدمہ نہیں کر سکتا، کچھ لوگ ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں، ہم پر امن لوگ ہیں ہمیں نہ چھیڑا جائے ، اگر ہمیں چھیڑا گیا تو پھر آپ گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہیں گے ،ہم نے ہمیشہ آئین و قانون کا ساتھ دیا اور آج بھی آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، ملک کے تمام ادارے اگر آئین کی پاسداری کریں گے تو پھر کوئی جھگڑا نہیں ہوگا،میں نے زندگی میں اتنا بے توقیر وزیراعظم نہیں دیکھا، آج ہمارا جعلی وزیراعظم جس ملک جاتا ہے کوئی استقبال کرنے نہیں آتا،عمران خان پہلے مرغیوں، پھر بھینسوں اور اب لنگر خانے سے ملکی معیشت ٹھیک کررہے ہیں۔پشاور میں جے یو آئی کے سکیورٹی رضاکاروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاہمارے مینڈیٹ پر جو ڈاکہ ڈالے گااس کے خلاف جدوجہد کریں گے ۔ آج معیشت ڈوب رہی ہے ، تبدیلی والوں نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن 20 لاکھ بے روزگار کردیئے ،ہمیں اپنے ملک اور ملک کی معیشت کو بچانا ہے ،ہم بھی 27 اکتوبر کو کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کریں گے ، کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے بعد قافلے اسلام آباد روانہ ہوں گے ۔ ووٹ چوروں کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ آئندہ کوئی بھی عوام کے ووٹ چوری کرنے کی ہمت نہیں کرے گا، جس ایجنڈے پر یہ حکومت قائم ہوئی عوام نے اس ایجنڈے کو ناکام بنا دیا ہے ، اب اس حکومت کو بھی ناکام بنائیں گے ،بین الاقوامی گریٹ گیم بنانے والے لوگ ہرجگہ اپنے کٹھ پتلی بناتے ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جو دوسرے کے لنگر خانوں پر کھڑے رہتے ہیں ،تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں اور سب نے آزادی مارچ کی حمایت کی ہے ، پارلیمنٹ اور سیکرٹریٹ پر حملہ کر یں گے نہ پی ٹی وی پر حملہ کرنا مشن ہے ، ہم نے کوئی شیشہ بھی نہیں توڑنا، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کو کہنا چاہتا ہوں احتیاط سے فیصلے کرو۔دریں اثنا ن لیگ کے وفد نے جے یوآئی سیکرٹریٹ پشاور میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی ،لیگی وفد میں مریم اورنگزیب ،احسن اقبال ،امیر مقام او رد یگر شامل تھے ،وفد نے فضل الرحمان کو نواز شریف کا خط پہنچایا ،ملاقات میں آزادی مارچ اور دھرنے کیلئے مختلف تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا ،ن لیگی وفد نے مولا نا فضل الرحمان کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ۔بعد ازاں احسن اقبال نے فضل الرحمان کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہانواز شریف نے خط لکھا کہ پارٹی کے نام پر کس طرح آزادی مارچ میں شرکت کی جائے ، نواز شریف کی تجاویز خط کے ذریعے مولانا کو دینے آئے ، نواز شریف نے اس بات کا اظہار کیا کہ مولاناکی مستعفی ہونے کی تجویز ماننی چاہئے تھی ،موجودہ حکومت ملک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی، ملک میں اس وقت سب پریشان ہیں ، کشمیر کے ایشو پر حکومت نے نالائقی کا ثبوت دیا ، عمران خان ایک تقریر کے ذریعے سمجھتے ہیں سب ٹھیک ہو گیا ، معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ، نواز شریف کو جعلی مقدمے میں پھر گرفتار کیا کیونکہ باپ بیٹی ایک ہی جیل میں تھے ، نواز شریف نے خط میں خواہش کا اظہار کیا کہ سب کو مل کر مارچ کو مضبوط بنانا چاہئے ، نواز شریف اور فضل الرحمان دونوں کی تجاویز پر عمل کیا جائے گا۔ اس موقع پر فضل الرحمان نے کہا جتنی باتیں احسن اقبال نے کہیں میں اس کی حمایت کرتا ہوں ، حکومت سے نجات کے لیے حکمت عملی مزید مضبوط بنائی جائے گی ،کشمیر کو حکومت نے بیچ دیا ہے ،مارچ پر دوسری جماعتوں اوراپنے پلان کو کمیٹی بنا کر ایک کریں گے ، 24 اکتوبر کو ہماری مرکزی شوری کا اجلاس ہو گا جس میں سب اکٹھے ہوں گے ، کیا حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی ، ہم نے آخری فیصلہ کر لیا ہے ، اب انتظار کرنا ہوگا کہ ہم کب ان کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالیں گے ، نواز شریف کا خط تفصیل سے پڑھیں گے ، نوازشریف نے مارچ میں بھرپور شرکت کی دعوت قبول کر لی ۔ادھر فضل الرحمان نے بلور ہاؤس پشاور میں غلام احمد بلورسے ملاقات کے بعد کہا اے این پی نے آزادی مارچ میں بھرپور شرکت اور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ، حکومت جتنا ہمیں چیلنج کرے گی ہمار ے حوصلے اتنے ہی بڑھیں گے ، اگر ہم میں سے کسی کو گرفتار کیا گیا تو پھر پلان بی پر عمل ہوگاجو زیادہ خطرناک ہے ، حکومت ہماری باتوں کو سنجیدہ نہیں لے ر ہی۔ پشاور( ممتاز بنگش )مسلم لیگ ن کی جانب سے جمعیت علماء اسلام کے آزادی مارچ میں شمولیت کے طریقہ کار پر حتمی اتفاق رائے نہیں ہوسکا ،جمعیت علماء اسلام کے ساتھ ن لیگ کے رہنمائوں کی ملاقات میں مشاورت کے لئے وقت مانگا گیا ہے ۔ملاقات میں فضل الرحمان،اکرم درانی ،مولانا عطاالرحمان ،حاجی غلام علی حسین مدنی ،امان اللہ حقانی،حسین مدنی ،عبدالغفور حیدری شریک ہوئے جبکہ ن لیگ کی جانب سے احسن اقبال ،امیر مقام ،مریم اورنگزیب،اختیار ولی نے شرکت کی ، مولانا فضل الرحمان کو نواز شریف کا خط دیا گیا اوران کی تجاویز سے آگاہ کیا گیا تاہم اندرونی کہانی کے مطابق ملاقات میں یہ طے نہیں ہوسکا کہ ن لیگ کے کارکن کیا جے یو آئی کے کارکنوں کی طرح ہی آزادی مارچ میں شرکت کرینگے یا نہیں،ملاقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ن لیگ کی تجاویز کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی بنائی جائے گی، نواز شریف کے خط کا تفصیلی جائزہ لے کرمشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا،ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن یہ یقین دہانی چاہتی ہے کہ کیا جے یو آئی کی جانب سے مارچ دھرنے کی شکل اختیار کرے گا اور حکومت گرانے تک کیا وہ اسے جاری رکھ سکیں گے یا نہیں؟،لیگی رہنمائوں کا خیال تھا اگر دھرنا کامیاب نہ ہوا تو یہ جے یو آئی سے زیادہ ان کیلئے خفت کا باعث ہوگا اورن لیگ میں تقسیم مزید بڑھے گی، وہ تمام رہنما جو شہباز شریف کا ساتھ دیتے ہوئے اب تک مارچ میں شامل ہونے پر آمادہ نہیں تھے وہ سب ان سب کے لئے یہ اس لئے بھی امتحان ثابت ہوگا کہ وہ ایسا دھرنا چاہتے ہیں جو منطقی انجام تک پہنچے ، جے یو آئی کی جانب سے اب مارچ کے خدوخال واضح کرنے کیلئے کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں مسلم لیگ ن کی تجاویز کو شامل کیا جائیگا جس کے بعد ہی ن لیگ کی جانب سے دھرنے میں شمولیت کا طریقہ کار وضع کیا جائیگا،لیگی رہنمائوں کو اس بات پر بھی تحفظات ہیں کہ اتوار کو جے یو آئی 10ہزار رضاکار جمع کرنے میں ناکام رہی،اگر رضاکاروں کا یہ حال ہو تو جے یو آئی کے کارکنوں کی بھر پور شمولیت پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔