کچھ سال قبل سرائیکی صوبے کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کیلئے ملتان میں صوبہ ملتان تحریک اور بہاول پور میں بہاول پور صوبہ تحریک شروع کی گئی ۔ نواب آف بہاول پور نواب صلاح الدین عباسی نے کروڑوں روپے خرچ کرکے ڈیرہ نواب صاحب میں ایک شاہانہ دعوت کا اہتمام کیا تھاجبکہ ملتان میں بھی کچھ لوگ ملتان صوبہ کا نعرہ لے کر میدان میں اُترے۔ حالانکہ یہ خود باہر سے آ کر آباد ہوئے اور کل تک الگ صوبے کے بدترین مخالف رہے۔ اب سرائیکی صوبہ بنتا دیکھ کر انہوں نے پینترا بدلا اور صوبہ ملتان کا نعرہ لگا دیا ۔ اسی طرح بہاول پورصوبہ والے بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم ’’سرائیکی‘‘ نہیں ’’ریاستی ‘‘ہیں۔ حالانکہ وہ بھی غلط کہہ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاستی کوئی قوم نہیں۔ قوم وہ ہوتی ہے جس کی زبان ایک ہو ‘ جغرافیہ ایک ہو اور کلچر ایک ہو ۔ اب ریاست چترال کے ریاستی کی زبان الگ ہے ‘ ریاست قلات کے ریاستی کی زبان اور ہے ‘ ریاست حیدر آباد دکن کا ریاستی اپنی بولی بولتا ہے ‘ اسی طرح ہندوستان کی ڈھائی سو ریاستوں کا تجزیہ کریں تو وہاں مختلف صورت نظر آئے گی ۔ آج اگر چترال ‘ سوات والا اپنے آپ کو ریاستی نہیں پشتون کہتا ہے‘ قلات والا بلوچ کہتا ہے۔ خیر پور والا سندھی کہتا ہے تو بہاول پور والے ’’ریاستی‘‘ جیسا غیر منطقی ‘ غیر علمی اور غیر ثقافتی نام کیوں قبول کریں گے؟ میری گزارش یہ ہے کہ نہ مغرب سے سورج طلوع کرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہتھیلی پر سرسوں پیدا کی جا سکتی ہے ۔ وقت ‘ حالات اور گردش دوراں کے پہیے کو اُلٹ چکرانے کے آرزو مند وں کی حسرت پوری نہیں ہو سکتی ۔ لہٰذا آپ سرائیکی کو ’’ریاستی‘‘ بنانے کی لاحاصل کوششوں سے باز رہیں ۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کو ’’ریاستی‘‘ ڈیپارٹمنٹ نہیں بنایا جا سکتا۔ ریڈیو پاکستان بہاول پور کے کسی ایک پروگرام کو بھی سرائیکی کے بجائے ریاستی نہیں کرایا جا سکتا ہے۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد70 کی دہائی میں بہاول پور صوبہ تحریک کے جلوس پرحکمرانوںنے گولیاں چلائیں ، فرید گیٹ کے اطراف میں خون ہی خون تھا،ہزاروں سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کو جیلوں میں بند کر دیا‘ رد عمل کے طور پر اسی بہاول پور صوبہ تحریک سے سرائیکی صوبہ تحریک وجود میں آئی ‘ اسی تحریک کو اہل بہاول پور نے اپنے خون سے سینچا اور ایک تناور درخت بنایا ۔ سرائیکی کو بحیثیت قوم پوری دنیا سے نہ صرف تسلیم کرایا بلکہ صادق آباد سے ٹانک تک پوری سرائیکی قوم کے بکھرے موتیوں کو ایک تسبیح میں پرو دیا ۔ بہاول پور کے اتنے بڑے کریڈٹ کو ڈس کریڈٹ میں تبدیل کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ دوسری گزارش یہ ہے کہ جو لوگ دلیل دیتے ہیں کہ بہاول پور صوبہ بھی بن جائے اور سرائیکی صوبہ بھی بن جائے ‘ کل کلاں ڈیرہ اسماعیل خان والے بھی اپنے ’’ڈیرہ جات‘‘ صوبے کی بحالی کا مطالبہ کر دیں تو کیا کوئی دوسرا صوبہ پسند کرے گا کہ وہ سینٹ میں سنگل اور سرائیکی وسیب والے ’’ٹرپل‘‘ ہوں؟ کچھ شاطر لوگ اندر خانہ جو بہاول پور صوبے کی تحریک چلوائے ہوئے ہیں وہ سیاسی چال ہے لیکن سرائیکی قوم کو پی پی ‘ ن یا ق لیگ کی سیاسی ضرورتوں کے تحت نہیں بلکہ اپنی قومی خود مختاری اور بقاء کیلئے الگ صوبہ چاہئے اور ایسا صوبہ چاہئے جس میں ان کے دریا اور اُن پر بننے والے ہیڈ ورکس مثلاً تریموں (جھنگ)‘ اور چشمہ (میانوالی) اس میں شامل ہوں۔ ایک گزارش یہ بھی ہے کہ سابق ریاست بہاول پوراس وقت تین ہیڈورکس بلوکی ‘ سدھنائی اور پنجند سے سیراب ہو رہی ہے یہ تینوں ہیڈورکس ریاست بہاول پور کی حدود سے باہر ہیں۔ بہاول پور اورسرائیکی صوبہ محاذ آرائی کرانے کا ایک مقصد سرائیکی قوم کو آپس میں لڑانے کے ساتھ ساتھ بہاولنگر کے لوگوں کو اس بات پر اُکسانا بھی ہے کہ آپ بہاول پور کو چھوڑ کر ساہیوال ڈویژن میں شمولیت کا مطالبہ کریں اور دلیل یہ دیں کہ ستلج کے ختم ہونے کے بعد ہم تو بلوکی اور ہیڈرسول ورکس کے آبنوش ہیں۔ میں نے یہ بھی کہا کہ محمد علی درانی نے ایک ’’ایگزیکٹو آرڈر‘‘ کے ذریعے بہاول پور صوبہ بحال کرانے کا شوشہ چھوڑ کر آپ جیسے بڑے بڑے سمجھداروں کو خوش فہمیوں میں مبتلا کر دیا ہے حالانکہ کچھ لوگ صرف سرائیکی صوبے کا راستہ روکنے کیلئے یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ بہاول پور صوبہ تحریک کے لیڈرمحمد علی درانی کا گھر مسلم ٹائون لاہور میں ہے ابھی کل اس نے بحیثیت سینیٹر لسانی بنیاد پر صوبہ خیبر پختونخواہ کی اٹھارہویں ترمیم پر دستخط کئے اگر وہ بہاول پور صوبہ سے مخلص تھے تو انہو ںنے اٹھارہویں ترمیم پر کیوں دستخط کئے؟ جہاں تک نواب صلاح الدین کا تعلق ہے تو گزارش یہ ہے کہ ان کا بہاول پور صوبہ تحریک سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا بلکہ ان کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ میرا بہاول پور صوبہ تحریک سے کوئی تعلق نہیں ۔ ان کی طرف سے بہاول پور صوبے کی حمایت کا اعلان ‘ دراصل سرائیکی صوبے کی مخالفت کا اعلان ہے اور یہ سرائیکی صوبے کی مخالف قوتوں کے اشارے پر ہو رہا ہے ورنہ نواب صاحب تو کچھ حکمرانوں سے اتنے خوفزدہ رہتے ہیں کہ چولستان کے رقبے دیدہ دلیری سے چھین لئے گئے ‘ محلات پر قبضے کر لئے گئے ‘ ستلج تہذیب اور ستلج وادی کو قتل کر دیا گیا ‘ بہاول پور سے قومی اسمبلی کا حلقہ چھین لیا گیا ۔ ہزار سالوں سے آباد مقامی لوگوں کو بیدخل کر دیا گیا۔ مقامی لوگ نواب صاحب سے فریادیں لیکر جاتے ‘ نواب صاحب نہ صرف یہ کہ ان کی نہ سنتے بلکہ اس ظلم کے خلاف نواب صاحب نے کبھی دو سطر کا بیان بھی جاری نہ کیا۔ اس پر سرائیکی شاعر جہانگیر مخلص نے سرائیکی زبان میں نواب صلاح الدین کو مخاطب کرکے لکھا: دَر تیڈے تے روندے بیٹھوں بیدخلی دے بعد ویندا پئیں تاں منگی آویں اڈ تے رتی ٹوپی اٹے دی ہک پڑوپی