بہت سے سابقے ہیں جو گردی کے ساتھ لگائے جا سکتے ہیںمثلا وکلا گردی، پولیس گردی، ڈاکٹرز گردی، طلبہ گردی، دہشت گردی، غنڈہ گردی وغیرہ ۔ اور یہ سب تراکیب ملا کر ایک تصویر بنائیں توکینوس پر پاکستان کے شدت پسند معاشرے کی تصویر بن کے ابھرے گی۔ایک ایسا معاشرہ جہاں جتھا ایک طاقت ہے، اخلاقیات سے ماورا اور قانون سے بالا تر۔ یہ جتھا مختلف رنگوں کے کوٹ پہن کر ہر چوتھے روز سڑک پہ نکلتا ہے اور خون ناحق سڑکوں پہ بہنے لگتا ہے ، دھبہ پہلے دن سرخ ہوتا ہے، دوسرے دن مٹیالا، تیسرے دن سیاہ اور چوتھے دن اس کا نشان بھی نہیں ملتا۔پہلے دن اخباروں میں لیڈ لگتی ہے،دوسرے دن دو کالمی خبر ، تیسرے دن آخری صفحے پر مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کی ایک کالمی خبر اور چوتھے دن ایک اور حادثہ۔ یہ خون خاک نیشیناں تھا، رزق خاک ہوا۔ ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں تسلسل سے ہوتے ہیں اور ان پر ردعمل بھی وہی روایتی۔ ان میں سے کوئی بھی ’’گردی ‘‘ ہو، مناظر ایک سے دیکھنے میں آتے ہیں۔ اخبار اور ٹی وی والے کیمرے اٹھا کر پہنچ جاتے ہیں، ڈی ایس این جیز کے اینٹیناز کھل جاتے ہیں۔رپورٹرز معلومات اکٹھی کرنے میں لگ جاتے ہیں۔درجہ اول کے پولیس اہلکار اور درجہ سوئم کے سیاسی قائدین جائے وقوعہ کی طرف دوڑتے ہیں ۔دیکھتے ہیں کیمرے کہاں لگے ہیں ، اپنی اور اپنی پارٹی کی جانب سے مذمتی بیان جاری کرتے ہیں۔درجہ دوئم کے رہنما اگلے دن سیکیورٹی میںجائے وقوعہ یا ہسپتال کا دورہ کرتے ہیں ، زخمیوں کو پھول دیتے ہیں اور میڈیا سے روایتی گفتگو۔امن برباد کرنے والوں سے آہنی ہاتھوںسے نمٹا جائے گا، معصوم انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، تحقیقاتی کمیٹی بنا دی ہے ،رپورٹ آنے سے پہلے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ پچھلے تیس سال کے دوران میں باری باری آنے والے حکمران حالات تبدیل کر سکے نہ اپنے جملے ۔معاشرے کی قسمت بدل سکے نہ اپنی حکمت عملی۔نظر انداز کر دینے اورمصلحت کا شکار ہو کر ہضم کر لینے کا رویہ واقعات کو دوبارہ وقوع پذیر ہونے پر اکساتا رہا اورجتھے کوٹ بدل بدل کر انسانیت اور قانون دونوں کا مزاق اڑاتے رہے ۔نہ وکیل پہلی مرتبہ قانون کو ہاتھ میں لے رہے ہیں نہ ڈاکٹرز یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ ان کا دامن صاف ہے۔اسلام آباد کی معروف یونیورسٹی میں دو روز پہلے پیش آیا یہ واقعہ قلم اور کتاب کے علم برداروں کے دامن کو پہلی مرتبہ داغدار نہیں کر رہا۔ منطق اور دلیل کی یہاں کوئی اہمیت نہیں ، وکلا کا کہنا ہے جو ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں مگر ذمہ داران کو سزا ہونے نہیں دیں گے، کسی نے زور زبردستی کی توتالا بندی کریں گے ،عدالتی نظام جامد کر دیں گے،مزید ضرورت پڑی تو دوبارہ سڑکوں پر نکلیں گے، جلائو گھیرائو کریں گے مگر ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہونے نہیں دیں گے اور اپنی مرضی کا انصاف حاصل کر کے رہیں گے۔ کتنی ہی بار ہوا ہے کہ ڈاکٹرز کے احتجاج پر ہونے کے باعث بروقت مریضوں کا علاج معالجہ نہ ہو سکا اور وہ جان سے گئے مگر کتنی بار ہوا ہے کہ ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی کو عملی طور پر ممکن بنایا جا سکا ہو۔ پچھلے دنوں ملتان میں طلبہ نے ایک عناد کی بنا پر ایک استاد کی سر راہ پٹائی کر دی، پشاور کی ایک یونیورسٹی میں ایک جتھے نے ایک نوجوان کو فتوی لگا کر ماردیا۔پولیس نے جتھا بنا کرماڈل ٹائون پر چڑھائی کی اور چودہ افراد کو دن دہاڑے قتل کر دیا۔ یہ ہم نے اپنے معاشرے کی کیسی تصویر بنائی ہے ؟ میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں ۔نئے الفاظ سیکھ رہے ہیں ، ایک تو ابھی ، بابا دادا بولنے کے مرحلے میں ہے۔ بچہ جو سنتا ہے وہ سیکھتا ہے ۔میں سوچتا ہوں اگلے چند مہینے یا سال میں میرے بچے کون کون سے الفاظ اپنے ارد گرد کے ماحول سے سنیں گے اور بولنا سیکھ جائیں گے۔کون سے الفاظ ہیں جو ہر وقت ٹی وی چینلز پر کثرت سے بولے جا رہے ہوتے ہیںاور جن کا تذکرہ ہماری گفتگووں میں زیادہ رہتا ہے۔حملہ ، دھماکہ ، فائرنگ، احتجاج ، مظاہرہ، سیکیورٹی، بندوقیں، آگ، خون ، ایمبولینس،قتل، تشدد، ظلم ، زیادتی، اغوا، جلائو گھیرائو،نذر آتش ، ہلاک،جاں بحق، چور، ڈاکو، لٹیرا۔کیا یہ معصوم بچے اگلے چند سال میں یہ سب الفاظ بولیں گے؟ میں سوچتا ہوں میرے بچوں کے پاس وہ سب الفاظ سیکھنے کے لیے کتنے کم مواقع میسر ہیںجن سے ہم یا ہمارے بڑوں نے لفظوں کی پہچان کا سفر شروع کیا تھا۔وہ یہ الفاظ کہاں سے سیکھیں گے جن کاا تذکرہ ہمارے معاشرے سے معدوم ہوتا جا رہا ہے ۔گڑیا ، پھول ، پری ، ستارے، بادل ، کھلونے ، غبارے ، پارک،مانواور چڑیا جیسے الفاظ کہاں کھو گئے ہیں۔ یہ وکلا اپنے بچوں کے لیے کیا روایات چھوڑ کر جا رہے ہیں۔یہ ڈاکٹرز اپنے بچوں کو کیا سکھائیں گے۔ان حالات میں جب ہمارے بچے پرورش پائیں گے اور وہ الفاظ سیکھیں گے جن کا میں نے پہلے تذکرہ کیا ہے تو لازمی بات ہے کہ ان کے مزاج اور طبعیت میں بھی تشدد کا عنصر در آئے گا۔نازکی ، ہنسی اور معصوم سی شرارتیں ان کی شخصیت سے عنقا ہو جائیں گی،خدشہ ہے کہ بچپن ہی سے وہ بہت سنجیدہ ، چڑچڑے اور متشدد رویے کے مالک بن جائیں گے۔میرا ایک وکیل صاحب سے سوال ہے کہ آپ ٹی وی پہ لاکھ دلیلیں دیجئے مگر آپ سے اگر آپ کے بچوں نے پوچھ لیا کہ بابا اسپتال میں ایک مریض کاآکسیجن ماسک کھینچ لینے کا عمل درست تھا تو آپ کیا جواب دیں گے ، اگر آپ سے آپ کے بچوں نے پوچھ لیا کہ کسی کے اشتعال دلانے پر اس پر حملہ کر دینا اور کچھ مریضوں کی جان لے لینے کا عمل درست تھا ؟ آپ کیا جواب دیں گے؟ مصلحت ایک ایسی بیماری ہے جس قوم کو لگ جائے ، کہیں کی نہیں رہتی۔ مصلحت سے کام لو، ورنہ وکلاعدالتیں بند کر دیں گے، مصلحت سے کام لو ورنہ ڈاکٹرز اسپتال نہیں چلنے دیں گے، مصلحت سے کام لو ورنہ حکومت کے لیے چیلنجز ہوں گے ۔اب بھی یہی ہو نے والا ہے ، وہ وکلا جن کے غنڈہ گردی میں ملوث ہونے کے تمام ثبوت ریاست کے پاس موجود ہیں ، مصلحتا چھوڑ دیے جائیں گے، مقدمات واپس ہو جائیں گے، انہیں فتح کا احساس دلایا جائے گا، معاشرے میں موجود دیگر جتھوں کو پیغام دیا جائے گا کہ طاقت کے بل بوتے پر قانون توڑنا جائز ہے،جسے انصاف چاہیے ، سڑکوں پر نکلے اور انصاف حاصل کر لے ۔ جانے انجانے میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پارہا ہے جسے پوری دنیا شدت پسند قوم کے نام سے پکارے گی۔بلکہ ذرا غورتوکیجیے ایسا معاشرہ تشکیل پا چکا ہے ،دنیا ہمیں شدت پسند کہہ رہی ہے۔