ایک دفعہ شیخ سعدی ؒکو حصولِ علم کی غرض سے شیراز سے بغداد کا سفر کرنا پڑا۔ بغداد، شیراز سے کافی فاصلے پر تھا، اور وہ پیدل چل رہے تھے۔ پیدل چلتے چلتے ان کا جوتا گِھس کر ٹوٹ گیا اور ایسی حالت اختیار کرگیا کہ سعدی ؒ کیلئے اس جوتے کو پاؤں میں پہننا ممکن نہ رہا چنانچہ وہ ننگے پاؤں چلنے لگے۔ ننگے پاؤں چلتے چلتے شیخ سعدی ؒ کے پاؤں زخمی ہوگئے۔ یہاں تک کہ شیخ سعدی ؒ تکلیف کی شدت سے کراہنے لگے۔ اب ان کے لئے مزید چلنا دشوار ہوگیا وہ ایک جگہ تھک کر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ سے گلہ کرنے لگے کہ اے اللہ تعالیٰ ! اگر تو نے مجھے رقم دی ہوتی، میرے پاس پیسے ہوتے تو میں یوں پیدل سفر نہ کرتا، نہ ہی میرا جوتا ٹوٹتا، نہ ہی میرے پاؤں زخمی ہوتے اور نہ مجھے یہ تکلیف برداشت کرنا پڑتی۔ابھی شیخ سعدی ؒ بیٹھے یہی سوچ رہے تھے کہ انہیں ایک معذور شخص دکھائی دیا جس کے دونوں پاؤں سرے سے تھے ہی نہیں اور وہ کھڑا بھی نہیں ہوسکتا تھا، پھر بھی وہ اپنے دھڑ کی مدد سے زمین پر بیٹھ کر خود کو گھیسٹ کر چل رہا تھا۔ شیخ سعدی ؒنے جب یہ منظر دیکھا تو خدا تعالیٰ سے معافی مانگی اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ میرے دونوں پاؤں سلامت ہیں، میں کھڑا بھی ہوسکتا ہوں، چل بھی سکتا ہوں۔