کئی بار پرویز الٰہی کو لگا انہوں نے عمران خان کو منا لیا ہے یا ڈرا لیا ہے۔ کئی بار انہیں محسوس ہوا عمران خان اسمبلیاں نہ توڑنے پر راضی ہو جائیں گے۔نہایت اعتماد کے ساتھ انہوں نے ٹی وی پر انٹرویو بھی دے ڈالا کہ مارچ تک تو کچھ نہیں ہونے والا۔لیکن عمران خان ضد پہ اڑے رہے اور پرویز الٰہی کو ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔انہوں نے بالآخر وہ کر ہی ڈالاجس کا راولپنڈی کے جلسے میں اعلان کیا تھا۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ عمران خان کا فیصلہ صحیح ہے یا غلط لیکن بظاہر لگتا ہے وفاق کی حکمران جماعت کو انہوں نے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ رانا ثنا اللہ اور دیگرلوگوں کا اندازہ یہی تھا کہ وہ ایسی حرکت سے گریز کریں گے۔ عمران خان کے ذہن میں مگر کوئی شائبہ نہ تھا۔ اتوار کو ان سے ملاقات ہوئی، پوچھا اب اسمبلیاں توڑنے کا کیا ارادہ ہے، جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی بول اٹھے سو فیصد توڑیں گے۔کہنے لگے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد بھی خود تحریک انصاف کے لوگوں کا خیال تھا عمران خان دو سے تین دن میں فیصلہ کریں گے، مگر چوبیس گھنٹے بھی نہ گزرے کہ سمری گورنر کو بھجوا دی گئی۔ پرویز الٰہی کا تو پتہ نہیں مونس مگر بہت مطمئن دکھائی دیتے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے مونس سے ملاقات ہوئی تھی۔ ان سے پوچھا تھا کہ فوری انتخابات میں جانا فائدہ مند ہے یا مدت پوری کرنے کے بعد ؟ کہنے لگے جتنا جلدی انتخابات میں جائیں اتنا بہتر ہے۔اس کے بعد ذہن میں اکثر یہ سوال آتا رہا کہ مونس عمران کے ہم خیال ہیں یا اپنے والد کے؟ حکمران جماعت بحر حال مشکل میں پڑ گئی ہے۔کم از کم دو صوبوں میں انتخابات کرانے کے سواکوئی اور راستہ لیا گیا تو وہ غیر آئینی ہو گا۔ حکومت شش و پنج میں پڑی ہے کہ صرف دو صوبوں میں انتخابات کرائے جائیں یا پورے ملک میں ۔ ملک احمد خان کا خیال ہے کہ سندھ اور بلوچستان کو کیسے انتخابات کے لیے راضی کیا جا سکتا ہے لہذا انتخابات صرف دو صوبوں میں ہی ہوں گے۔رانا ثنا اللہ مختلف رائے رکھتے ہیں ، انہیں لگتا ہے کہ دو حصوں میں انتخابات میں جانے کا سیاسی نقصان ہو گا ،الیکشن میں ایک ساتھ اترنا چاہیے۔ ن لیگ یہ بات جانتی ہے کہ اگر موجودہ عوامی مقبولیت کے باعث عمران خان خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا اثر چھ مہینے بعد ہونے والے باقی دو صوبوں کے انتخابات پر بھی پڑے گا۔ تب لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ہو گی کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے ،وفاق میں بھی یہی حکومت بنانے جا رہے ہیں۔ پنجاب کے عوام سوچیں گے کہ فنڈز تو تحریک انصاف کے پاس ہیں ، قومی اسمبلی کی نشست پر بھی انہیں ہی کامیاب ہونا چاہیے۔ وہ الیکٹیبلز جو ہمیشہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے ہیں تا کہ بعد میں حکومت بنانے والی جماعت کا حصہ بن سکیں ،وہ بھی تحریک انصاف کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑنا چاہیں گے۔یوںقومی اسمبلی کے لیے تحریک انصاف کا ٹکٹ مقبول ہو جائے گااور انتخابی ہوا اس کی موافقت میں چلنے لگے گی۔ تحریک انصاف پنجاب جیت گئی تو ن لیگ وفاق میں بھی غیر مقبول ہو جائے گی۔معاشی صورتحال اور مہنگائی کا دبائو پہلے ہی سے موجود ہو گا ، اس پر اگر دو صوبے ہاتھ سے نکل چکے ہوئے تو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے کون ووٹ دے گا۔سندھ اور بلوچستان میں تو پہلے ہی دیگر سیاسی جماعتوں کا قبضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رانا ثنا اللہ نے واضح طور پر یہ بیان دے دیا کہ دو صوبوں میں انتخابات میں اترنے سے بہتر ہے پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن میں اترا جائے۔ حکمران اتحاد سے ایسی آوازیں اب بھی سنائی دے رہی ہیں کہ اسمبلیاں جولائی اگست میں بھی نہ توڑی جائیں اور ان کی مدت ایک سال کے لیے بڑھا دی جائے ۔مگر ان خواہشات کی تکمیل کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا کرنے پر بضد ہوا تو ملک کو نا قابل تلافی نقصان کر کے ہی ایسا کر ے گا۔ معاشی حالات ایسا کرنے کی اجازت کسے دیں گے۔ بڑے چائو سے اسحاق ڈار کو لایا گیا تھا مگر اب بیچارگی ان کے چہرے سے صاف نظر آتی ہے۔کوئی منصوبہ جیسے ان کے پاس موجود ہی نہیں۔گذشتہ روز ان سے پوچھا گیا کہ سعودی عرب نے کس مد میں پیسے دیے ہیں، کہنے لگے ابھی یہ واضح نہیں ۔ پوچھا گیا جینیوا کانفرنس میں ملنے والی رقم قرض ہے یا امداد، اس سادہ سوال کا بھی واضح جواب ان کے پاس موجود نہیں تھا۔ پہلے جیسا اعتماد اس دفعہ اسحاق ڈار میں دکھائی نہیں دیتا۔ آئی ایم ایف کو ان پہ بھروسہ نہیں ۔ ماضی میں بھی اعداد وشمار کے ہیر پھیر سے انہیں دھوکہ دے چکے ہیں۔ اس بار آئی ایم ایف کی ہچکچاہٹ واضح ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہوں گی۔ڈیل ہو بھی گئی تو مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ان حالات میں انتخابات میںاترنا ہرگز آسان نہیںگا۔ عمران خان کویہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ اب مقتدرہ کو قبول نہیں رہے اور اگر یہ پیغام الیکٹیبلز کو چلا گیا تو وہ اڑانیں بھرنے میں دیر نہیں کریں گے، فورا کسی دوسری جگہ آشیانہ بنائیں گے۔ گذشتہ روز مگر اعتماد کے ووٹ نے ثابت کیا کہ 186ارکان میں سے کسی نے بھی اس پیغام کو قبول نہیں کیاہے۔ عوام کی رائے اس وقت انہیں بھی واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان سے پچھلے دنوں ایک نشست میں سوال کیا گیا تھا کہ کیا آپ اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول ہوں گے اور یہ کہ اتنا کچھ ہو جانے کے بعد آپ اب ان کے ساتھ مل کر چل سکیں گے۔ انہوں نے جواب دیا اسٹیبلشمنٹ اس ملک کی ایک حقیقت ہے، بالکل اسی طرح تحریک انصاف بھی اس ملک کی ایک حقیقت ہے۔ بہتر یہی ہے دونوں قوتیں ایک دوسرے کو حقیقت تسلیم کر کے آگے بڑھیں۔ مگر کیا کہا جا سکتا ہے، اس ملک میں اتنا کچھ اتنی بار ہو چکا ہے کہ پورے اعتماد کے ساتھ کچھ بھی کہنا مشکل ہو گیا ہے۔ عمران خان مگر پُراعتماد ہیں کہ انہیں ہرانا اب کسی کے لیے بھی ممکن نہیں رہا۔ بیس گھنٹے کے اندر اندر اسمبلیاں توڑنے کے عمل سے بھی یہی لگتا ہے کہ انہیں اپنی کامیابی کا یقین حد سے زیادہ ہے۔ فیصلہ وقت نے کرنا ہے۔