12 جنوری 2023 ء کو وہ ہوگیا جس کے بارے میں زیادہ لوگوں کی رائے تھی کہ یہ نہیں ہوگا۔پنجاب کے وزیر اعلی جناب پرویز الٰہی کے بارے میں بہت سے لوگوں کا گمان یہ تھا کہ وہ کسی صورت میں پنجاب اسمبلی کو تحلیل نہیں کریں گے۔وہ اپنی چلتی حکومت کو کسی طور پر ختم نہیں کریں گے۔پاکستان تحریک انصاف اور پرویز الہی نے ایک بہت بڑا سر پرائز دیا۔ سب سے پہلے انہوں نے اعتماد کا ووٹ لیا اور مقررہ تعداد میں اپنے ووٹ پورے کر لئے سب اندازے غلط ثابت ہوئے اس بار نہ تو جناب آصف زرداری پاکستان تحریک انصاف کے ممبرز کو توڑنے میں کامیاب ہوئے اور نہ کوئی غیبی امداد پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کو مل سکی۔لوگ اس بار ایک بہت اہم بات کو نظر انداز کر رہے تھے۔ اس بار آصف زرداری اور پاکستان مسلم لیگ نواز کا سامنا عثمان بزدار جیسے نو وارد سیاستدان سے نہ تھا اس بار ان کا سامنا اس انسان کے ساتھ تھا جو گزشتہ 43 سال سے پاکستان کی سیاست میں بھر پور حصہ لے رہا ہے۔ پرویزالٰہی 1979ء سے سیاست میں فعال ہیں اور 1985ء سے وہ اسمبلی کی سیاست میں ہیں۔ وہ پاکستان مسلم لیگ نواز میں بھی رہے ہیں اور وہ جناب آصف زرداری کے حریف بھی رہے ہیں اور حلیف بھی۔ وہ ان دونوں پارٹیوں کے دائو پیچ اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔انہوں نے اپنے سارے مقاصد حاصل کر لئے ہیں۔ اب وہ پنجاب کے وزیراعلی کو طور پر اپنے ضلع گجرات میں اپنی سیاسی پوزیشن بہت مضبوط کر چکے ہیں، بہت تھوڑے عرصہ میں پنجاب میں سات نئے اضلاع کا قیام۔ ملتان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں بیڈز کی تعداد بڑھا کر 1000 کر دی ہے اور وزیر آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں بیڈز کی تعداد 500 ہو جائے گی۔وزیر آباد میں 5 کروڑ کی لاگت سے فیملی ہیلتھ کلینک کا قیام اور گکھڑ منڈی میں ٹراما سنٹر کا قیام کا اعلان۔ چوہدری پاکستان کی سیاست کو سمجھتے ہیں انہوں نے گوجرانوالہ میں صحافیوں کے لئے 300 پلاٹ پر مشتمل کالونی کے قیام کا اعلان کردیا ہے۔ اب پاکستان مسلم لیگ نواز نے پنجاب میں پرویز الٰہی کو واک اوور دے دیا ہے۔ مریم نواز کا اس اہم مرحلے پر ملک سے چلے جانا اور جناب حمزہ شہباز کا ملک میں نہ ہونا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے لئے ایک بڑا دھچکا تھا۔ اب ساری ذمی داری آصف زرداری پر تھی کہ وہ کس طرح اپنے پتے کھیلتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز نے پنجاب عطا تارڑ اور رانا ثنا اللہ کے حوالے کر دیا۔ یہ دونوں افراد میڈیا پر تو دھواں دار گفتگو کر سکتے ہیں جوڑ توڑ کی سیاست ان کے بس کی بات نہیں۔ اب پرویز الٰہی نے گورنر کو اسمبلی کی تحلیل کی سمری ارسال کر دی ہے۔ وزیر اعلی کی درخواست پر گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنا ہوتی ہے ورنہ 48 گھنٹے میں یہ خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔چوہدری شجاعت نے بھی ایک دو دن پہلے کہا تھا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہوگی۔ عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ وہ سیاست چھوڑ دیں گے اگر پنجاب اسمبلی تحلیل ہو گئی۔ رانا ثنا اللہ بھی بڑے پر امید تھے کہ پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر سکیں گے۔19 دسمبر سے لیکر 12 جنوری تک پنجاب میں صورتحال ہر دن نہیں ہر گھڑی تبدیل ہو رہی تھی۔ 19 دسمبر کو گورنر نے پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا اور 22 دسمبر کو پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کر دیا کہ وہ اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکے اس لئے وہ وزیر اعلی نہیں ہیں۔ 19 تاریخ کو جب گورنر نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تھا تو پنجاب اسمبلی کے سپیکر نے گورنر کے اس حکم کو غیر آئینی قرار دیا کہ جب اسمبلی کا اجلاس جاری ہے تو وہ نیا اجلاس نہیں بلا سکتے۔پرویز الٰہی گورنر کے حکم کے خلاف عدالت میں گئے اور عدالت نے گورنر کاحکم منسوخ کر دیا اور پرویز الہی کی حکومت کو بحال کر دیا ساتھ میں پرویز الہی سے یہ بھی منوا لیا کہ وہ عدالت کی اگلیسماعت تک اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔ بہت سے لوگ اس بات پر خوش تھے کہ عدالت نے پرویز الٰہی کو اسمبلی تحلیل کرنے سے منع کردیا ہے اب پرویز الٰہی کے پاس بھی موقع ہے کہ وہ عمران خان کو جواب دے سکتے ہیں کہ وہ عدالت کے حکم کے آگے مجبور ہیں۔ اس سلسلہ میں لگ یہ رہا تھا کہ پرویز الٰہی بھی جیت گئے ہیں اور مسلم لیگ نواز بھی اور عمران خان ہار گئے ہیں۔پرویز الہی کی حکومت بچ گئی تھی اور پاکستان مسلم لیگ نواز پنجاب اسمبلی کو بچانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔یہ لوگ ایک بات بھول گئے تھے کہ 11 کے بعد 12 تاریخ بھی آنی ہے اور بارہ کو وہ ہو گیا جس سے بہت سے افراد کے ساتھ وہ ہوا کہ وہ نہ تین میں رہے نہ تیرہ میں۔ اب جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا اب کیا ہو گا۔ جب کے پی کے اور پنجاب کی حکومت ختم ہو جائے گی اور ان دو صوبوں میں نئے الیکشن ہونگے تو کیا صورتحال ہو گی۔لگ بھگ 15 اپریل کے قریب الیکشن ہونگے اور گندم کی کٹائی شروع ہو چکی ہوگی اور عوام کا غضب اپنے پورے عروج پر ہوگا۔ ان حالات میں پاکستان تحریک انصاف کا راستہ روکنا بہت مشکل ہو گا۔ اب پاکستان مسلم لیگ کی قیادت کو چاہیے کہ وہ الیکشن کا سامنا کریں ورنہ دفاعی حکمت عملی انکو کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ اب مریم نواز اور حمزہ شہباز کو فوراً پاکستان کا رخ کرنا چاہئے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ کراچی میں متحدہ پھر متحد ہو چکی اور شاید اس بار وہ پاکستان تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دے۔ جماعت اسلامی بھی کراچی میں کافی متحرک ہو چکی ہے۔سندھ میں کراچی اور حیدر آباد میں الیکشن ایک بار پھر ملتوی ہو چکے ہیں۔کمزور ٹیمیں میچ سے جان چھڑا رہی ہیں۔