وہ بھی بگڑا ،ہوئی رسوائی بھی جان لیوا ہے شناسائی بھی کیوں اٹھاتے ہو ہمیں ہوتے ہیں ہر تماشے میں تماشائی بھی کچھ ایسی صورت حال پر مجھے لکھنا تھا کہ’ ہم دونوں آغاز پہ پہنچے۔کیسا یہ انجام ہوا ‘ساتھ ہی حافظ حسین احمد کی گفتگو نے کانوں میں رس گھولنا شروع کر دیا۔یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ حافظ بزلہ سنجی میں بڑوں بڑوں کے پر کترتے ہیں۔ کوزے میں دریا سمیٹ دیتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ یہ جو سات ہیں یہ کسی کے ساتھ نہیں ہوتے۔ ویسے یہ جو لفظ ساتھ ہے اسے ہم شاعر لوگ ضرورت شعری کے باعث سات بھی لکھ لیتے ہیں کہ یہ بات کا قافیہ بن جائے۔ تو ہم نے بھی آج ادب اور سیاست بلکہ صحافت کو اکٹھا کر کے اظہار کی کوشش کی ہے۔ ہم کہیں اور سنا کرے کوئی۔ یہ وہی سات ہیں جو کبھی حکومت کے حق میں جاتے ہیں اور کبھی اپوزیشن کے خلاف۔گویا یہ سیاست کی کہکشاں ہے یعنی یہ اکٹھے سات ستارے جو کبھی ادھر بکتے ہیں تو کبھی ادھر۔ میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل غم حیات سے کہدو خریدلے مجھ کو حافظ حسین احمد کی بات ویسے دل کو لگتی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ یہ بات صد فی صد درست ہو۔ وہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو بہت سمجھایا تھا کہ آپ ان دو بچوں کے درمیان میں آ کر اپنا وقار ختم نہ کریں۔ یہ حافظ صاحب کی دور اندیشی تھی، وگرنہ نواز شریف اور آصف علی زرداری نے مل کر مولانا کو اپنا امام بنایا اور بچوں کو ان کے حوالے کیا۔ پھر جو ہوا ساری دنیا نے دیکھا کہ مولانا کے آزادی مارچ کے نتیجہ میں نواز شریف صاحب کی اسیری ختم ہو گئی اور وہ لندن جا بیٹھے۔ اب ممکن ہے کہ حالیہ متوقع مارچ کے نتیجہ میں مریم باہر پدھار جائیں اور وہاں کورم پورا ہو جائے۔ مریم اینڈ پارٹی کی طویل خاموشی نتیجہ خیز نہ ہوئی تو حکومت کے لئے مسئلہ پیدا ہو گیا۔ حافظ صاحب نے باقاعدہ مشرف جیسے این آر او کی بات کی۔مگر اس کا ثبوت شاید جلد سامنے نہ آئے نواز شریف بھی 10سالہ معاہدہ کب مانے تھے جو کہ سیاست کی سنہری تاریخ کا حصہ ہے۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ حافظ صاحب پہلے اور دوسرے مارچ کو رینٹل مارچ کا نام دیتے ہیں راجہ رینٹل کے بعد یہ بھی اختراع ہے: قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن حافظ صاحب نے درست کہا کہ سارے شور شرابے سے کچھ مفادات نواز فیملی کے پورے ہوئے اور کچھ زرداری پارٹی کے۔ ان کے بقول مولانا فضل الرحمن کو آخر کار انہی کے پاس واپس آنا پڑے گا۔ مولانا فضل الرحمن یقینا اس وقت الجھن کا شکار ہیں اور وہ کہتے تو ٹھیک ہیں کہ استعفے دیئے بغیر لانگ مارچ کا کوئی فائدہ نہیں۔ ویسے بھی یہ لانگ مارچ کچھ زیادہ ہی لانگ ہو چکا۔ویسے لوگ ہماری سیاست سے کچھ زیادہ ہی بدظن ہیں۔ صبح رشید احمد انگوی نے ایک درس میں زرداری صاحب اور نواز شریف پر تبصرہ فرما دیا تو بدمزگی پیدا ہو گئی۔ ویسے ان کی یہ بات غلط نہیں تھی کہ زرداری کے کہنے پر یوسف رضا گیلانی نے سوئس حکومت کو خط نہیں لکھا اور سزا پا گئے۔ پھر زرداری نے اب انہیں دوبارہ بحال کروانے کی کوشش کی اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو باقی سزائیں بھی معاف ہو جاتیں کہ ایوان بالا کا چیئرمین کبھی قائم مقام صدر بھی ہوتا ہے: سچی باتیں اچھی باتیں ہوتی ہیں اچھی باتیں سچی باتیں ہوتی ہیں لگتا ہے یہ تو شعر بن گیا یہ بھی تو شعرہے ’کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے۔ ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے ‘ میں سمجھتا ہوں کہ شعر میں آفاقی سچائی ہوتی ے تو اس حساب سے اچھے لوگوں کے لئے یہاں دروازے بند ہیں بلکہ ان دروازوں کی چابی مالک مکان کے پاس نہیں محافظ کے پاس ہے۔ باقی باتیں چھوڑیے اور عثمان بزدار کی بات سنیے کچھ بھی ہو جائے وہ دھیمے لہجے میں کہہ دیتے ہیں ہم عوامی خدمت جاری رکھیں گے۔ تھانے میں بھی کچھ ایسے ہی ڈائیلاگ ہوتے ہیں ۔اور تو اور امریکہ نے بھی تباہی پھیلانے والے بموں پر لکھا تھا with loveاس ظالم نے تو ٹوائے بم toy bomبھی بنائے۔ بات کسی اور طرف نہ نکل جائے عمران خاں تو واقعتاً غریبوں سے محبت ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا میں جس سے پیار کرتا ہوں اس کو مار دیتا ہوں۔عمران خان بہرحال مہنگائی کے ساتھ جہاد کر رہے ہیں۔ غور سے پڑھیے مہنگائی کے ساتھ جہاد کو مہنگائی کے خلاف جہاد نہ سمجھ لیا جائے ۔ کورونا کی تیسری لہر اور حکمرانوں کے پاس تسلی بخش جواب: کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی جمع خرچ رکھیں پیٹرول پر مہنگا ہونے جارہا ہے۔ ہر چیز سستی ہے۔ سوائے سینیٹرز کے ووٹ کے۔ ویسے یہ عہدے اور منصب کبھی عزت و وقار کے لئے ہوتے تھے اب ان کی حیثیت پیداواری دکان یا کمپنی کی ہے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر سلیمان عبداللہ نے ایک پوسٹ بھیجی ہے کہ دل پر آویزاں ہو جائے ۔آویزاں تو آپ سمجھتے ہونگے کہ جسے تصویر لگا دے کوئی۔ جس کی پذیرائی دل کرے وہی پذیرائی۔ اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی۔ جو دل لے اڑے جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ: ہاتھ رکھنا پڑا سینے پہ ہمیں بھی آخر دل کہاں رہتا ہے دلدار تک آتے آتے قارئین!دل کی بات درمیان میں آ گئی تو دل چاہنے لگا کہ دل پر تھوڑی سی بات کر لی جائے۔ دونوں جہاں کہاں تری وسعت کو پا سکے۔ اک دل ہی وہ جگہ ہے جہاں تو سما سکے۔ بندیا کسے دا دل نہ توڑیں۔ رب دلاں وچ رہندا۔ اور میر انیس یاد آ گئے کہ’ خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم، انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو ۔حکمرانوں سے گزارش ہے کہ وہ عوام کا دل نہ دکھائیں۔ خدا کے لئے مہنگائی اور امن و امان کی صورتحال پر توجہ دیں۔آپ سے تو لاہور کا گند نہیں سمیٹا جا رہا۔ اس موضوع پر تو پورا کالم درکار ہے۔ ڈاکٹر اشفاق ناصر کا شعر: تری طویل مسافت کی فال نکلی ہے اور اختتام سفر پر نڈھال سا میں تھا