مکرمی! توشہ خانہ پنڈورا باکس کھل گیا۔ بڑا افسوس ہوا کہ ہمارے حکمرانوں ‘افسران اور ان کی اولادوں نے توشہ خانہ سے تحائف لیے جن میں گاڑیاں‘ سونا و دیگر قیمتی تحائف شامل ہیں۔گو کہ یہ تحائف ہمارے سیاستدانوں اور افسران کو میزبان ممالک نے بڑی کرسیاں ملنے پر دیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سب تحائف کو عوام کی فلاح وبہبود‘ تعلیم پر لگایا جاتا لیکن ہمارے ملک میں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے ۔ ان تحائف کو مال ِ غنیمت سمجھتے ہوئے یہ حکمران ان کو اپنے گھروں میں لے گئے ‘ دوست و احباب کودیدیے یا بازار میںاونے پونے فروخت کردیے۔ یہ غریب عوام کے ساتھ زیادتی نہیں تو اور کیا ہے۔ ان سب حکمرانوں کو وہ تحائف توشہ خانے میں جمع کروانے چاہیے تھے یاان کو فروخت کرکے فلاح عامہ کے کاموں پر خرچ کرنا چاہیے تھا۔انتہائی دکھ و افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ توشہ خانہ کے حمام میں سب بے لباس ثابت ہوئے اور ملک کی بدنامی کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔(محمد عرفان علی چشتی‘ لاہور)