14 اگست 1947ء سے اب تک ہم غیر جانبداری, ایمان داری اور جراتمندی سے جائزہ لیں تو ہمارے ریکارڈ میں آ گئے بڑھنے اور عالمی برادری میں اپنا مقام بلند کرنے کا کوئی قابلِ فخر کام نظر نہیں آتا۔ جمہوریت مذاق بنکر رہ گئی ہے ۔ سیاست بدنام ہے تو معیشت میں ناکام اخلاقیات زوال پذیر ہے۔جمہوریت کے جذبے کے بْلبْلے سے ہماری ہوا نکل چکی ہے۔ قومی یکجہتی دور دور تک نظر نہیں آ رہی ہے یوں ہم ہماری بیلنس شیٹ میں نفح و نقصان کے گوشوارے میں کوئی بھی فائدے کی چیز پیش کرنے سے قاصر ہیں ہاں البتہ نقصانات, شرمندگی, سْبکی اور ناکامیوں کی لمبی چوڑی فہرستیں ہیں جن میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ ایک وہ بھی زمانہ تھا جب ایک روپیہ ایک ڈالر کے برابر تھا پاکستان چین کو قرضہ دیتا تھا پاکستانی معیشت کے ماڈل کو جنوب مشرقی ایشیا میں کامیاب قرار دیا جاتا تھا۔ ماہرین معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق کو عالمی بینک میں ایک ماہر کے طور پر عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ پاکستان کے سربراہان مملکت جب بیرونی دورے پر جاتے تھے تو ریڈ کارپٹ بچھا کر انکا استقبال کیا جاتا تھا اور جب بیرون ممالک سے سربراہان پاکستان کا دورہ کرتے تھے تو پاکستان کی تحسین کرتے تھے۔ اس پس منظر میں اگر ہم ماضی قریب کے ادوار کا جائزہ لیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ نہ ہم سیاسی طور پر مضبوط ہوئے ہیں اور نہ معاشی طور پر خود کفیل ہوئے ہیں نہ ہی ہماری ساکھ بحال ہوئی ہے نہ اخلاقی طور پر ہمارا قد کاٹھ بلند ہوا ہے۔ ہماری زوال پذیری کا عمل تیزی سے جاری ہے جس کو روکنے کے لئے سابق وزیراعظم عمران خان نے لاکھ جتن کئے لیکن زوال پزیری کے عادی سیاست دانوںکو یہ بحالی راس نہیں آئی اور انہوں نے اسی زوال کو اپنا عروج سمجھ لیا جس کا نتیجہ حالیہ رجیم چینچ کی شکل میں قوم اور دنیا کے سامنے کس ناکس اور ایرے غیرے کی نظر میں ہے۔ پورا ملک ایک ہیجانی, بحرانی کیفیت میں ہے کہ کل کیا ہوگا۔ ماہرین, دانشور علمائے کرام اور میڈیا کے دانا لوگ پیشن گوئیاں کرتے ہیں کہ پاکستان خدانخواستہ ڈیفالٹ ہونے والا ہے اس کے اثاثے منجمد ہونے والے ہیں اور امپورٹڈ حکمران عوام کو طفل تسلیاں دینے میں مصروف ہیں البتہ ایک پہلو خوش آئند ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے نعرے اور نظریے کی بنیاد پر اور پراپیگنڈہ مشینری مہم کے زور پر عوام کو جس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا تھا یا اسلام اور پاکستان اور مسلمانوں کے دشمنوں کا جو ہٰوا کھڑا کیا ہوا تھا اس کا پردہ بری طرح چاک ہوگیا ہے۔ عام آدمی کو بھی اس بات کا پتہ چل گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت کی تبدیلی کے پیچھے کرپٹ مافیا, منی لانڈرر ,ضمیر فروش لوگوں کا ہاتھ تھا جن سے جان چھڑانا قومی غیرت کا تقاضا ہے لوگوں کو یقین ہوگیا ہے کہ پاکستان آج تک حقیقی آزادی سے محروم ہے۔ اس شعور کا کریڈٹ عمران خان کو ہی جاتا ہے یہ پاکستان کی تاریخ کی بڑی تبدیلی ہے کہ عام آدمی پر محب وطن عوام اور ملک دشمنوں کا فرق واضح ہوگیا ہے اب اس تبدیلی کو روکنااپنی موت کو ہی دعوت دینے کے مترادف ہوگا بس یہی وہ فائدہ ہے جو اس قوم کو رجیم چینچ کے بعد حاصل ہوا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی جغرافیائی سالمیت, سیاسی حاکمیت اور نظریاتی ساکھ بچانے کے لئے عمران خان کے بیانئے کی حمایت کی جائے اور جتنا جلد ہوسکے آزادانہ غیرجانبدارانہ اور جمہوری اقدار کی روشنی میں انتخابات کروا کر حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کردی جائے تاکہ حکمرانوں اور عوام میں فکری اور عملی یکجہتی پیدا ہو اور ملک اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رہے۔ پنجاب میں سابق وزیراعظم عمران خان کے حمایت میں جس محبت سے لوگ انتخابی جلسوں میں شرکت کررہے ہیں یہ ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتا ہے اس ریفرنڈم کے خلاف کوئی بھی اقدام ملک میں خانہ جنگی کا باعث بن سکتا ہے۔ رجیم چینچ سے کیا حاصل ہوا جن لوگوں کو اقتدار میں لایا گیا ان سے تو ملک کے لیے کچھ بھی نہیں ہورہا ہے وہ تو ادارے کمزور کررہے ہیں اپنے کیس ختم کررہے ہیں ۔ آئی ایم ایف ان پر اعتبار نہیں کررہا ہے اور نئی نئی اور کڑی شرائط عائد کررہا ہے ۔مہنگائی ہوچکی ہے۔ آئی ایم ایف مزید ایشاء خوردونوش مہنگی کروا رہا ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی ہے ہی نہیں۔ بلاول بھٹو سیر و تفریح میں مصروف ہیں مسئلہ کشمیر کو دفن کردیا گیا ہے ملک میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے یہ لوگ فوج کی بدنامی کا بھی باعث بن رہے ہیں قوم سب کچھ برداشت کرسکتی ہے لیکن فوج کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتی چونکہ فوج ہمارے ملک کی محافظ ہے۔ فوجی قیادت کو اپنے ادارے کے وقار کو قائم اور بچانے کی ضرورت ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ امپورٹڈ حکمرانوں کی فلم فلاپ یا ڈبہ ہوگئی ہے جس سے رائٹرز, پروڈیوسر اور ہدایت کار سب کے سب دیوالیہ ہو گئے ہیں۔