سید صبغۃ اﷲ سہروردی 

 

خیر وشر ، نیکی و بدی اور اچھائی و برائی یہ دو ایسی متضاد قوتیں اور ثریا و ثریٰ کی مانند فرق رکھنے والے دو ایسے ذہن وکردار ہیں جو ازل سے باہم برسرپیکار ہیں اور ابد تک رہیں گے اسی لیے علامہ محمد اقبال رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا تھا کہ 

موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید

ایں دو قوت از حیات آید پدید 

اگر ہم تاریخ عالم ، تاریخ مذاہب اور بالخصوص تاریخ اسلام کی ورق گردانی کریں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہر دور کے مردانِ خدا نے فسق وفجور اور ظلم و استبداد کے شعلے بجھانے کے لیے بغیر کسی توقف و ترددکے اپنی جانوں ، اپنے مال واسباب یہاں تک کہ اپنے نومولود بچوں کی جانوں کانذرانہ بھی ہتھیلی پر رکھ کے پیش کیا اور بارگاہِ الٰہی میں سرخرو ہوئے اور ظلم و بربریت کے خلاف ایسے سربکف مجاہدین کا نعرہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ 

گریزد از صف ما ہر کہ مرد غوغا نیست 

کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلہ ٔ مانیست 

اسلام کی خاطر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی لازوال قربانیوں کے بعد دس محرم الحرام ۶۱ہجری کو شہزادہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردِمیداں ،فرد کیواں حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام نے بھی فسق و استبداد کے خلاف ایک ایسی عدیم النظیر قربانی دی ہے جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ منفرد قلم سے لکھی گئی ہے اور لکھی جائے گی اگر ہم واقعہ کربلا کے فکری اسباب اور پس منظر پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ یزید کے پاس منصب واقتدار کے آتے ہی جس طرح شعائر اسلامی کی خلاف ورزی ، حدود اﷲ کی خلاف ورزی ، فرائض کی عدم ادائیگی ، سرکاری پیسے کا بے دریغ استعمال اور فسق وفجور جب حد سے بڑھ گیاتب ہی سیدنا امام حسین علیہ السلام اس بربریت کے خلاف میدان میں آئے کیونکہ وہ عظیم شخصیت جو آغوشِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پروان چڑھی تھی وہ شخصیت جسے سید الشباب اہل الجنۃ کے خطاب سے نواز ا گیا وہ شخصیت جس کے متعلق لسان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ارشاد ہوا کہ الحسین منی وانا من الحسین ۔وہ عظیم فرزند جس کے لبوں پر سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لب ِاقدس رکھے وہ عظیم بیٹا جس کی والد ہ ماجدہ سیدۃ النساء فی العالمین تھیں وہ مبارک شخصیت جس کے قریب سے بھی آج تک باطل نہیں گزرا تھا اور وہ مرد جو مجسمۂ حق وصداقت اور پیکر ِ عزم واستقلال تھا اور جس نے اسلام کا ارتقاء اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کیسے یہ ظلم و زیادتی برداشت کرسکتا تھا اور کیسے اپنا ہاتھ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میںدے سکتا تھا جس کے قبیح اور مذموم اعمال و کردار پر خود برائی بھی شرمندگی محسوس کرتی تھی چنانچہ جب حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کویزید ایسے فاسق و فاجر کی بیعت کے لیے کہا گیا تو آپ نے واضح الفاظ میںانکار فرمادیا: 

ماسوی اﷲ را مسلمان بندہ نیست 

پیش فرعون سرش افگندہ نیست 

باطل اور ظلم کا مقابلہ کرنے کے لیے جس طرح سیدنا امام حسین علیہ السلام نے اپنے اہل وعیال اور ساتھیوں سمیت جانوں کا نذرانہ پیش کیا وہ ہمارے لیے مثال ہے اور حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے اس عظیم کارنامے نے اہل حق کے لیے کئی فکری راہیں متعین کردی ہیں جن پہ عمل پیرا ہوکے ظلم وباطل کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ امام عالی مقام کا یہ قدم اٹھانا خدانخواستہ اقتدار و منصب کے حصول کے لیے نہیں تھا کیونکہ آپ نسبت کے لحاظ سے جس عظیم منصب پر فائز تھے اس کے سامنے ویسے ہی تمام مناصب ہیچ تھے اور نہ ہی ان عظیم ومبارک ہستیوں کو ان ظاہری چیزوں کی ضرورت تھی ۔

مدعا یش سلطنت بودے اگر 

خو د نہ کردے باچنیں ساماں سفر 

اگر حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کو اقتدار کی خواہش ہوتی تو آپ یہ قدم نہ اٹھاتے کیونکہ بیعت کے بعدآپ کو سب کچھ مل سکتا تھا مگر جانشین رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظلم و باطل کے سامنے کب جھکنے والا تھا بلکہ آپ نے تو میدان میں قدم رکھ کر اس یزیدی طوفان کا مقابلہ کیا جو حق و باطل کی تفریق ختم کرنا چاہتا تھا اور جو آداب واخلاق کی حقیقی اقدار کو گمراہ کن نظریات میں منتقل کرنا چاہتا تھا پیشوائے اولیاء حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی مایہ ٔ ناز تصنیف کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ ’’شمع آل مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجرد از علائق دنیا امام اہل زمانہ ابو عبداﷲ الحسین بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام ) آپ یکے از محققین اولیا قبلہ اہل ابتلاء اور شہید دشتِ کربلا ہیں اہل طریقت آپ کے احوال کی درستی اور سربلندی پر متفق ہیں جب تک حق ظاہر رہا آپ اس کے پیرو کار رہے جب حق مفقود ہوگیا تو آپ تلوار نکال کر میدان میں آگئے اور جب تک اپنی جان جانِ آفریں پر فدا نہ کردی، آپ کو چین نہ آیا‘‘ چنانچہ تاریخ کی روشنی میں قطعاً دو رائے نہیں کہ سیدنا امام حسین علیہ السلام کا مقصد صرف اور صرف احیائے اسلام، ظلم کا خاتمہ ، کلمۂ حق کی بلندی ، باطل کی سرکوبی اور اپنے نانا جان کے دین اور شریعت کی حفاظت تھا ۔

بہر حق درخاک و خوں غلطیدہ است 

پس بنائے لاالہ گردیدہ است 

اب غور طلب امر یہ ہے کہ سیدنا امام حسین علیہ السلام کی اس عظیم شہادت آپ کے پورے گھرانے کی قربانی اور آپ کے انصار کی وفاداری و جانثاری سے آج کے مسلمان کو کیا سبق ملتا ہے اگر غور کیا جائے تو واقعۂ کربلا سے ہمیں سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے آج بھی کربلا کی خاک مبارک ہمیں پکا ر پکار کے کہہ رہی ہے کہ جب بھی کوئی فرعون و یزید تم پرمسلط ہوجائے جب مفاد اور نفسانی خواہشات کے لیے شعائر اسلام کا مذاق بنایا جارہا ہو جب ضمیر فروش لوگ تم پر حاکم بن جائیں جب دین وشریعت کی من پسندی تشریح ہونے لگے جب ہر طرف ظلم و بربریت ہو جب حق وباطل کی تفریق ختم ہوچکی ہو اور جب قرآن وسنت کی بالادستی ختم ہونے لگے تو ہزار قسم کے خوف ومصائب کے باجود بھی حق وصداقت ، حق گوئی و بے باکی اور راست فکری کا دامن کبھی نہ چھوڑنا اور نہ کبھی میدان سے پیچھے ہٹنااور اگر تمھیںخوف یا نا امیدی ہونے لگے تو ہزاروں یزیدویوں کے مقابل ۷۲نفوس کی قربانی یاد کرنا ،شہزادگانِ اہل بیت کی شہادتیں یاد کرنا ، حسینی لشکر کی پیاس یاد کرنا اور ابدی طور پر کامیاب و کامران ہونے والے لشکر حسین (علیہ السلام ) کا مقام ومرتبہ اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہا ں یاد کرنا ۔اور قیامت تک حق کے لیے جو بھی کھڑا ہوگا اس کا شمار حسینی قافلے میں ہوگا کیونکہ جس طرح سیدنا امام حسین علیہ السلام نے حق وسچ کی تاریخ رقم کی ہے بجا طور پر وہ قیامت تک حق کے لیے اٹھنے والے قافلوں کے امیر و پیشوا ہیں اور آپ کی سیرت مبارکہ سے بھی ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ کبھی بھی جبرو طاغوت کے مقابلے میں مصلحت کا شکار نہ ہونا بلکہ مقابلہ کرنااور اسباب سے زیادہ مسبب الاسباب پر یقین رکھنا اور آپ کی سیرتِ مبارکہ جہاں ہمارے لیے بے شمار فکری راہیںمتعین کرتی ہے وہاں ہمیں یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ نا مساعد سے نامساعد ترین حالات میں بھی اﷲ اور اس کے نبی آخرالزماں سرورکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کامل یقین وایمان رکھنا کسی بھی حال میں صبر کا دامن نہ چھوڑنا اور ہر حال میں تسلیم ورضا سے وابستہ رہنا کیونکہ ’’ آپ نے حق وصداقت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘کے لیے جو بے مثال قربانی پیش فرمائی ہے وہ نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری انسانیت کے لیے اپنے اندر سرمدی پیغامات کے جہان سمیٹے ہوئے ہے بالخصوص انصاف وعدالت اور امن آفرینی کے مطالبات کا ایک خوبصورت مرقع ہے جس میں پوری انسانیت کے لیے یہ درس موجود ہے کہ مظلوم اپنے جادۂ حق وصداقت پر ڈٹا رہے اور سرِمو بھی اس سے انحراف نہ کرے اور اس میں اپنی عددی قلت اور اسباب ِ حرب وضرب کے فقدان سے کبیدہ خاطر اور دلبرادشتہ نہ ہو اور تمام امور خدائے وحدہٗ لاشریک کے حضور نیاز مندانہ سپرد کرکے حکیمانہ اندازمیںاپنے مشن کی پیش رفت جاری رکھے تو رحمت خداوندی از خود دستگیری فرمائے گی اور ظلم و استبدادکی آندھیوں میں بھی چراغ مصطفوی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)جلتا رہے گا اور حق کی متلاشی سعید روحوں کو حق و ہدایت کی تابانی عطا کرتا رہے گا کربلا کے ذرے اور شہیدوں کے خون کے قطرات آج ہم سے یہی تقاضا کررہے ہیں اگر ہم نے ان تقاضوں کو پوراکرنے کی ٹھان لی تو قطعی طور پر ہم اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ و بقااور ترویج و اشاعت کے میدان میںکوئی قابل قدر کارنامہ انجام دے سکیں گے جو شہیدانِ باوفا کی بارگاہوں میں بہترین خراج عقیدت ہوگا ‘‘(از ۔عصر حاضر میں پیغام حسینی کی معنویت ) حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کی یہ قربانی اپنے دامن میں حکمرانوں کے لیے بھی عظیم درس لیے ہوئے ہے اور حکمرانوں سے مرادہرقسم کے وہ صاحب منصب لوگ ہیں جن کے ماتحت لوگ کام کرتے ہیںان کے لیے یہی پیغام ہے کہ کبھی بھی حق وسچ اور عدل وانصاف کو ترک نہ کرنا اپنے عہدوں کا غلط استعمال نہ کرنا مفاد عامہ پر ذاتی مفاد کو کبھی بھی ترجیح نہ دینااور نہ ہی نفس کی تسکین کے شوق میں عوام الناس کے حقوق روند ڈالنا اور نہ ہی اقتدارو دولت کے نشے میںاچھائی وبرائی کی تمیز کھو بیٹھنا ۔اس کے ساتھ واقعہ کربلامیں عہد حاضر کے نوجوانوں کے لیے بھی عظیم سبق پنہاں ہے کہ ہمیشہ حق وسچ کا ساتھ دینا کبھی بھی باطل کے سامنے نہ جھکنا اور نہ کبھی اصولوں پر سمجھوتا کرنا اور تمھاری جتنی استطاعت ہو اس سے بھی بڑھ کر ظالم کے خلاف مظلوم کا ساتھ دینا ۔

٭…٭…٭

         قیامت تک حق کے لیے جو بھی کھڑا ہوگا اس کا شمار حسینی قافلے میں ہوگا کیونکہ جس طرح سیدنا امام حسین علیہ السلام نے حق وسچ کی تاریخ رقم کی ہے وہ بے مثال ہے

 

 کربلا

زندہ نبی کی آل سے ہے نامِ کربلا 

روشن انہی کے نام سے ہے شامِ کربلا 

ذکرِ حسین کھو گیا رسم و رواج میں 

بھولے ہوئے ہیں آج ہم احکامِ کربلا 

اک لازوال صبْر تھا میرے حسین کا 

اک لازوال ذکْر ہے انعامِ کربلا 

بس یہ نہیں کہ جان وہ اپنی لٹا گئے 

اک ابتلائے تام ہے ہر گامِ کربلا 

یہ داستانِ غم بھی روایت ہی بن گئی 

اوجھل نظر سے ہو گیا پیغامِ کربلا 

آغازِ کربلا ہوا ظلمِ یزید سے 

فتحِ حسین پر ہوا انجامِ کربلا 

بابرؔ! سلام حضرتِ سجّاد کو کریں 

دیکھے ہیں جن کی آنکھ نے آلامِ کربلا 

    بابر حسین بابرؔ

انتخاب : سید محمد شہزاد علی 

       

  باطل اور ظلم کا مقابلہ کرنے کے لیے جس طرح سیدنا امام حسین علیہ السلام نے اپنے اہل وعیال اور ساتھیوں سمیت جانوں کا نذرانہ پیش کیا وہ ہمارے لیے مثال ہے