ڈپٹی سپیکر جناب قاسم سوری نے فواد چودھری صاحب کو آج ایوان میں طلب فرما رکھا ہے کہ تشریف لائیے اور معزز ایوان کو بتائیے کورونا پر آپ کی تحقیقات کہاں تک پہنچیں۔میں یہ خبر دو تین مرتبہ ساری حیرت کے ساتھ پڑھ چکا ہوں اور اب بیٹھا سوچ رہا ہوں اپنے بھائی قاسم سوری کی سادگی پر قربان جائوں یا ان کے تجسس کے قصیدے لکھوں۔یہ ایک خبر بتا رہی ہے کہ کورونا سے نبٹنے میں ہم کس قدر سنجیدہ ہیں اور اس معاملے میں ہماری تحقیق کا معیار اور مرتبہ کتنا بلند ہے۔ آج کا دن ہر اعتبار سے ایک تاریخی دن ہے اور سات براعظموں میں پھیلی نسل انسانی آج بے تابی سے ہمارے معزز ایوان کی کارروائی سنے گی کہ جناب فواد چودھری کی تحقیقات کہاں تک پہنچیں اور ان کی محنت شاقہ اور علم و فضیلت باہم مل کر کب تک بنی نوع انسان کو اس وبا سے نجات دلا پائیں گی۔چونکہ ہم نے یوم اقبال کی چھٹی ختم کر دی ہے اور اب ہم صرف محنت پر یقین رکھتے ہیں ، اس لیے میں یہ تجویز بھی پیش نہیں کر سکتا کہ اس مبارک موقع پر عام تعطیل کا اعلان فرما دیا جائے۔لیکن مجھے یقین ہے کہ مورخ جب تاریخ لکھے گا تو وہ آج کے دن منظر عام پر آنے والی اس عظیم تحقیق کو نسل انسانی کی بقا کا انتساب قرار دے گا اور کورونا کے فاتحین میں فواد چودھری صاحب اور ان کی تحقیق کا تذکرہ ہمیشہ جلی حروف میں کیا جائے گا۔ آپ ہماری سنجیدگی کا عالم دیکھیے ، جس پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس پر یہ غریب قوم قریبا چار سو لاکھ روپے خرچ کرتی ہے وہاں نہ وزیر اعظم تشریف لائے نہ قائد حزب اختلاف اور آج یہاں ایوان کو بتایا جائے گا کورونا کے خلاف ہماری تحقیقات کہاں تک پہنچیں۔ فیض آباد پر ٹریفک جام میں پھنسی ہوئی ہے یا ریڈ زون میں داخل ہونے والی ہیں۔میں چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں ایوان میں عالم شوق پر کیا جوبن ہو گا اور معزز اراکین کتنی وارفتگی سے تشریف لائیں گے کہ آج انہیں کورونا کے خلاف ہماری ان تھک تحقیق کے نتائج سے آگاہ فرمایا جائے گا۔ اس اہم اور تاریخی موقع پر اگر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ڈی چوک کے آس پاس اس تحقیق کی آرتی اتارنے پہنچ جاتا تو یہ محققین کرام کی تحقیق کا ایک ادنی سا خراج ہوتا لیکن سوشل ڈسٹنسنگ کے اصول کی وجہ سے یہ قوم اپنے محقق محترم کی شایان شان پزیرائی سے محروم ہی رہے گی۔ازالے کی ایک صورت البتہ ہو سکتی ہے کہ اس اہم موقع پر خصوصی نشریات کا اہتمام کیا جائے اور ان کی بلندی درجات کے لیے خصوصی دعائوں کا اہتمام فرمایا جائے۔ ایوان بالا ہو یا زیریں ، ہر دو کا احترام ہے کہ ایک جمہوری ملک میں قیادت کا منصب انہی کے پاس ہوتا ہے۔ احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے مگر سوالات بہت سارے ہیں اور اتنے تندرست و توانا ہیں کہ ان کا گلا گھونٹنا بھی بہت مشکل کام ہے۔مقدس ایوان کے اراکین کی مراعات کا ایک سونامی ہے جسے دیکھیں تو آنکھیں ابل کر باہر آ جاتی ہیں۔ ایسے میں اس سوال سے یقینا ایوان کے معزز اراکین کا استحقاق مجروح نہیں ہو گا کہ آپ کی کارکردگی کیا ہے؟آپ کی تشریف آوری اور قیام کے جملہ لوازمات یہ غریب قوم پیٹ کاٹ کر پورے کرتی ہے ، کیا اسے یہ پوچھنے کا حق بھی ہے کہ آپ لوگ کیا کرتے ہیں؟ایک دن کی نشست پر اوسطا چار سو لاکھ کیا اس لیے پھونکے جاتے ہیں کہ فواد چودھری سے کہا جائے وہ تشریف لائیں اور ایوان کو کورونا سے متعلق اب تک کی تحقیق سے آگاہ کریں۔ کیا سنجیدگی ، معاملہ فہمی اور بالغ نظری کے ان مظاہر سے ہماپنی قسمت بدلنا چاہتے ہیں؟ فواد چودھری صاحب کی وزارت نے ماسک تیار کرنے کی عظیم سائنسی پیش رفت کے علاوہ اگر کچھ کیا ہے تو اس پر وہ جائیں اور ڈاکٹرز کو بریفنگ دیں۔ایوان کو اپنا وقت ان معاملات پر صرف کرنا چاہیے جو سود مند بھی ہو۔ ڈپٹی سپیکر شاید بہت سادہ ہوں یا فواد چودھری صاحب سے کوئی پرانا حساب چکتا کرنا چاہتے ہوں تو یہ الگ بات ہے ورنہ کورونا سے نبٹنے کے تحقیق کی توقع فواد صاحب کی وزارت سے کرنا ایسے ہی ہے جیسے سی ڈی اے سے کہا جائے جا کر ناسا کا چارج سنبھال لے۔ کورونا پر تحقیق میں دنیا لگی ہے اور ڈور کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا۔ ہمارے پاس نہ وسائل ہیں نہ وہ ٹیکنالوجی اور اہلیت جو ترقی یافتہ دنیا کا مقابلہ کر سکے اور ہم اپنے وزیر موصوف کو ایوان میںطلب فرما رہے ہیں کہ آ کر بتائو تمہاری تحقیق کہاں پہنچی۔کوئی سادگی سی سادگی ہے۔ ایوان میں اگر کرنے کو اور کچھ نہیں اور وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کو تشریف لانا گوارا نہیں تو ایسی کارروائی سے کیا بہتر نہ ہو اجلاس ملتوی فرما کر معزز اراکین کو گھر پر آرام کرنے کا موقع دیا جائے۔ملک و قوم کے اثاثے کو خطرات سے بچا کر رکھنا عین حکمت کا تقاضا ہے اس لیے احتیاط ضروری ہے۔ ایوان میں سائنسی تحقیقات میں ہونے والی عظیم پیش رفت پر اتنے تجسس کی بجائے اگر انتظامی معاملات پر بات کی جائے تو شاید اس کا کوئی نتیجہ بھی نکل سکے ۔ کوئی واضح اور جامع پالیسی بنائی جائے کہ ہم نے کرنا کیا ہے۔ لاک ڈائون کرنا ہے یا نہیں کرنا۔ ہسپتالوں کی او پی ڈیز کھولنی ہیں یا نہیں۔ کورونا کے علاوہ دیگر مریضوں کے مسائل سے کیسے نبٹنا ہے۔ روزگار کے امکانات کیسے تلاش کرنا ہیں۔اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جو پارلیمان کی توجہ چاہتے ہیں کہ وہاں کوئی قومی پالیسی تشکیل دی جائے۔ فواد چودھری کی سائنسی تحقیقات اور خدمات کی بجائے اگر ان انتظامی معاملات میں دلچسپی دکھائی جائے تو یہ ملک اور قوم کے لیے خیر کا باعث بن سکتی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی اور تحقیق کی کہانی ہم خوب جانتے ہیں کہ ہم کتنے پانیوں میں ہیں۔