امیر جماعت ِ اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ غلے کے گودام، قومی خزانہ ہو یا توشہ خانہ، ہمیشہ حکمرانوں کا کردار مجرمانہ رہا ہے۔ حکومت پی ٹی آئی کی ہو یا پی ڈی ایم کی ہمیشہ مافیاز کا راج رہا۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک بھی عوامی فلاحی منصوبہ نہیں رکھتیں۔ سیلاب ہو یا آٹے کا عذاب ان کو پروانہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی نہ ملے تو پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ٹرائیکا کی سیاست عجائب گھر میں ملے گی۔ جماعت ِ اسلامی مہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک کو حتمی مرحلے تک لے کر جائے گی۔ سراج الحق نے کہا کہ ملک میں گندم کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا ہے تاکہ مافیا فائدہ اٹھائے، ہر پانچواں پاکستانی مسائل کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہے۔ چند خاندانوں نے پورے نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے، ان کا مقصد صرف اپنا مال اور جائیدادیں بنانا ہے، حکمرانوں کی لڑائی سے عوام کو واضح پیغام مل رہا ہے کہ یہ طبقہ انہیں شودر سمجھتا ہے۔ امیر جماعت ِاسلامی نے اِس امید کا اظہار بھی کیا کہ رواں برس قوم آزمائے ہوئے ظالم جاگیرداروں، وڈیروں اور کرپٹ سرمایہ داروں سے نجات حاصل کرکے انتخابات میں جماعت اسلامی پر اعتماد کا اظہار کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ شہزادوں کا دور ختم ہونا چاہئے، میرٹ کی حکمرانی، آئین و قانون بالادستی قائم ہوگی تو ملک آگے بڑھے گا۔ ایک سوال کے جواب میں امیر جماعت کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم شکست کے خوف سے ایک ہو رہی ہے۔ کراچی میں شفاف انتخابات ہوئے تو ایم کیو ایم اکٹھی رہے یا الگ ہوجائے، شکست اس کا مقدر ہے۔ امیر جماعت نے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں اور صوبائی جماعتوں کی سیاست کو مفاد پرستی، ذاتی فائدے اور مافیاکو فائدہ دینے والی سیاست قرار دیا ہے۔ تاحال سبھی سیاسی جماعتوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد محض ذاتی فائدے کو ہی قومی و ملکی مفاد پر ترجیح دی ہے۔ پارلیمان میں ہونے والی قانون سازی، قانون کی زبوں حالی، آئنی اداروں اور طاقت کا بے جا استعمال سیاستدانوں کا بدصورت چہرہ دِکھانے کیلئے کافی ہے۔ گزشتہ پچھتر سالوں میں امریکی امداد کبھی پاکستانی عوام پر خرچ نہیں ہوئی۔ ہمیشہ حکمرانوں نے امریکہ اور دیگر ممالک سے قرض لیا اور بدلے میں سود سمیت قرض اتارنے کے لئے پاکستانی عوام کو کڑوی گولی کھلائی گئی۔ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پاکستانی عوام کو ذہنی طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ روزانہ ایک منحوس خبر بار بار دہرائی جاتی ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے، پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا، موجودہ اور سابق حکمراں ایک دوسرے کوموردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ انہوں نے ملک کو دیوالیہ کردیا ہے۔ اِنناہجاروں سے کوئی پوچھے کہ کیا پاکستان کو عوام نے دیوالیہ کیا ہے؟ کیا عوام نے امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر امریکی جنگیں لڑہیں اور ملکی معیشت کمزور کی؟کیا کبھی عوام نے بزدلی دکھا کر جی حضوری کی؟ کیا عوام نے بلوچستان، اندرون سندھ، خیبر پختونخوا اور وسطی و جنوبی پنجاب میں چوری، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان، قتل و غارت، آئے روز اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ سمیت دیگر ظلم کے بازار گرم کررکھے ہیں؟ تحریک ِ انصاف کی حکومت سے قبل عوام کے لئے کونسی دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں جو تحریک ِ انصاف نے اقتدار میں آکر روک لیں؟ تحریک ِانصاف نے بھی ملک میں جاری مصیبت میں اور اضافہ کیا اور حالات مزید سے مزید بگڑ تے گئے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ تحریک ِانصاف کے اقتدار اور بعد از اقتدار کئی نقاب پوش چہروں اور اداروں کے سرسے کپڑا اور پاؤں سے زمین ضرور نکل گئی ہے۔اِ ن کے چہرے اس قدر عریاں ہوگئے کہ اِنہیں دیکھ کر گھن آنے لگی ہے۔ لیکن امیر جماعت ِ اسلامی سراج الحق کی یہ بات درست ہے کہ سبھی جماعتوں نے عوام اور ملک کو لوٹا ہے۔ یہ ملک کو لوٹ نہیں رہے بلکہ ملک کو کھا رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے شور کے عین بیچ منی لانڈرنگ، ظلم کا واویلا کرکے عوام پر مزید ظلم روا رکھا جا رہا ہے۔ عوام کی حالت بد سے بدترین ہوتی جارہی ہے اور عوام کے مفادات کو عزیز رکھنے کے جذبے سے عاری اس مفاد پرست ٹولے کی دولت اور اثاثوں کے انبار میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔جہاں تک جماعت ِ اسلامی کا سیاست میں عمل دخل ہے وہ خود جماعت کے لئے لمحہ ِ فکریہ ہے۔ تاریخ کے جھروکوں سے دیکھا جائے تو سوائے جنرل مشرف کے سبھی طالع آزماؤں کے دورِ حکومت میں اس جماعت نے سیاسی جماعتوں کے لئے سخت اور فردِ واحد کے لئے نرم گوشہ اختیار کئے رکھا اور کچھ میں تو شامل ِ اقتدار بھی رہی۔جس تحریک ِانصاف کو اب موردِ الزام ٹھہرایا جارہا ہے، اْسی کے ساتھ خیبر پختونخوا میں شامل ِ اقتدار رہ کر اسی تحریک ِانصاف کو سیاسی طور پر مضبوط بھی اسی جماعت نے کیاہے۔ پھر حیران کن طور پر جو سیاست دان جماعت ِ اسلامی سے نکل کر دوسری سیاسی جماعت میں داخل ہوتا ہے وہ اچھے عہدوں پر فائز ہوتا ہے اور کامیاب سیاستدان بھی ثابت ہوتا ہے مگر جماعت کے اندر رہ کر وہ عوامی ووٹ حاصل کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ حالانکہ اس شخص کی مذہبی اور سیاسی تربیت جماعت نے کی ہوتی ہے اور وہ آخری دم تک جماعت کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے مگر وہ جماعت میں رہ کر سیاسی طور پر مضبوط نہیں ہوپاتا جتنا وہ دوسری جماعتوں میں ہوتا ہے۔ اِ س کا واضح مطلب تو یہی ہے کہ جماعت سے کہیں نہ کہیں عوامی نبض کو سمجھنے میں غلطی سرزد ہورہی ہے۔ جماعت کواپنے انداز ِ سیاست کو زمینی حقائق کے مطابق ڈھالنا ہوگا اور طرزِ سیاست کو عوامی کرنا ہوگا۔ بلاشبہ جماعت ِ اسلامی صاف و شفاف کردار کی مالک مذہبی و سیاسی جماعت ہے جسے دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح اقتدار کے لئے آزمایا جانا چاہئے۔ عین ممکن ہے کہ یہی جماعت ملک و ملت کو سرخرو کرنے میں کامیاب ثابت ہو۔ مگر موجودہ پاکستانی سیاست کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ جومقبول (عمران خان) ہے وہ (اب) قبول نہیں اور جو قبول (جماعت ِ اسلامی)ہے وہ مقبول نہیں!