دو دن پہلے ہی حکومتی ترجمانوں نے یہ اطلاع دینا شروع کر دی تھی کہ وزیر اعظم خطاب فرمانے والے ہیں۔اس میں وہ غریب عوام کے لئے ایسا امدادی پیکیج جاری فرمانے والے ہیں،جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملے گی، جب یہ خطاب ہوا تو پتہ چلا ‘حکومتی ترجمانوں نے کسر نفسی سے کام لیا تھا۔وزیر اعظم نے جس امدادی پیکیج کا اعلان کیا‘اس کی مثال پاکستان تو کیا‘براعظم ایشیا کی تاریخ میں بھی نہیں ملے گی۔سچ تو یہ ہے کہ سچ یہ موخر الذکر فقرہ بھی نہیں اور سچ یہ ہے کہ اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ پیکیج کی بے مثالیت اپنی جگہ‘خطاب خود معرکتہ آلارائی کی تاریخ میں ایک معرکتہ آلارا مثال تھا۔خاص طور پر آخری فقرے نے تو چشم کشائی کی مثال قائم کر دی۔فرمایا‘ٹھیک ہے‘حالات مشکل ہیں، لیکن تین سال پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں اور یہ اللہ کا کرم ہے۔ اللہ کا کرم واقعی بے پایاں ہیں‘اگرچہ یہ مقام اللہ کے کرم کا ذکر کرنے کا نہیں‘سبحان تیری قدرت کہنے کا تھا اور وہ لوگوں نے کہی۔ ٭٭٭٭٭ فرمایا‘دو خاندان دولت لوٹ کر لے گئے۔وہ آدھی دولت بھی واپس کر دیں تو قیمتیں آدھی ہو جائیں گی۔کتنا گہرا فلسفہ!ملاحظہ فرمائیے۔یہ دونوں خاندان پوری دولت واپس کر دیں تو کیا ہو؟چیزی مفت ملنا شروع ہو جائیں گی۔ وزیر اعظم نرم دل ہیں اور بلا کے نرم دل۔ورنہ کوئی اور حکمران ان کی جگہ ہوتا تو یہ لوٹی ہوئی دولت واپس لے کر ہی ٹلتا۔یہ ان کی نرم مزاجی ہے کہ انہوں نے آدھی دولت کی رعایت کر دی اور ساتھ ہی یہ رعایت بھی کہ وہ خود ہی یہ دولت واپس کر دیں۔ اس دریا دل رعایت کی بھی کوئی مثال سالوں براعظموں میں نہیں مل سکتی۔اسی رعایت کا تقاضا تھا کہ انہوں نے اپنا ہی بار بار اعلان کردہ یہ وعدہ ایک طرف رکھ دیا کہ حکومت میں آتے ہی لوٹی دولت واپس لائوں گا اور اسی تقاضے کے تحت انہوں نے اپنے ہی ایک بامراد اور سعید بخت وزیرکا یہ وعدہ بھی اسی اوّل الذکر وعدے کے ساتھ ہی رکھ دیا کہ خان آئے گا‘پہلے ہی روز لوٹی ہوئی دولت کا 200ارب ڈالر واپس لائے گا‘ایک ارب آئی ایم ایف کے منہ پر مارے گا اور ایک ارب آپ پر خرچ کرے گا۔ ٭٭٭٭٭ سعید بخت بامراد وزیر کے بیان سے یہ معلوم ہوا تھا کہ ان دونوں خاندانوں نے جو رقم لوٹی ہے،اس کا تخمینہ دوسو ارب ڈالر ہے۔لیکن خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس تخمینے پر نظرثانی کا کام شروع ہوا،جو اب تک جاری ہے۔مکمل ہو تو پتہ چلے کہ لوٹی ہوئی رقم دراصل ہے کتنی؟ اور کہاں کہاں سے‘کیسے کیسے اور کب کب لوٹی گئی۔ فی الحال تو مشیر احتساب شہزاد اکبر صاحب فائلوں کی ورق گردانی میں لگے ہیں۔سنا ہے جو فائل بھی کھولتے ہیں‘سارے ورق اس کے سادہ نکلتے ہیں، اس لئے ثبوت ڈھونڈنے میں تاخیر ہو رہی ہے‘کیسے کیسے چالاک حکمران تھے۔دو سو ارب ڈالر کی کرپشن کی اور ثبوت ایک نہیں چھوڑا۔ یاد آیا‘دس صندوق ثبوتوں کے واجد ضیا نے بھی اکٹھے کئے تھے۔ان کا کیا ہوا؟کیا ان کے سارے ورق بھی سادہ تھے؟یاد ہے‘تب کیسا غل مچا تھا کہ یہ صندوق کھل گئے تو قوم کی آنکھیں کھل جائیں گی۔اب پتہ نہیں کاغذوں سے حرف اڑ گئے یا تالوں میں ایلفی ڈالی گئی؟ ٭٭٭٭٭ اور پیکیج کے تو کیا ہی کہنے۔ایک سو بیس ارب کی سب سڈی۔تیرہ کروڑ افراد فائدہ اٹھائیں گے۔کیلکولیٹر سے ایک سو بیس ارب کو تیرہ کروڑ پرتقسیم کریں تو کیا جواب آتا ہے؟جی مبلغ 923روپے اعشاریہ صفر 76پیسے یہ رقم چھ مہینوں میں ملے گی۔یعنی فی مہینہ 153روپے۔ وزیر اعظم نے کچھ زیادہ ہی دریا دلی نہیں دکھا دی؟اتنی رقم سے یہ لوگ فضول خرچی پر اتر آئیں گے اور فضول خرچی اچھی چیز نہیں۔ازراہ کریم‘رحم دل وزیر اعظم صاحب اپنی اس دریا دلی پر کچھ نظرثانی فرمائیں‘قوم کو فضول خرچی سے بچائیں۔ ٭٭٭٭٭ تحریک انصاف کے حامی کیلکولیٹر کو غلط قرار دیں گے اور حق بجانب ہوں گے یہ رقم اتنی نہیں ہوگی ‘زیادہ ہو گی کیونکہ اس بات پر اتفاق رائے ہے اور جیسا کہ پنجاب حکومت کے ایک وزیر نے کہا ہے اس پیکیج سے خوشحالی کا دور آئے گا۔ دور کا لفظ بہت احتیاط سے چنا ہے۔سونامی اس لئے نہیں کہا کہ وہ تو‘یعنی خوشحالی کا سونامی پہلے ہی آ چکا ہے۔خوشحالی کا سونامی دیکھ لیا‘اب اس کا دور بھی دیکھیں گے۔اس دور کے لئے فیض مرحوم نے کہا تھا کہ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ ہاں‘مطلع کو مقطع بنانا یاد ہی نہیں رہا اور وہ یہ ہے کہ کمپیوٹر اور کیلکولیٹر غلط ہو سکتا ہے‘خان نہیں اس لئے کہ اس کے پاس صادق و امین ہونے کی سندھ موجود ہے ایسی سند جس کی تطہیر ساتوں براعظموں میں موجود نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایک سینئر صحافی نے جن کی تھوڑی سی زمین بھی ہے‘بتایا کہ پچھلے سال انہوں نے کھاد کی جو بوری 39سو میں خریدی تھی‘اس سال 79سو کی خریدی ہے۔یعنی پوری پوری دگنی۔شدید رنج میں تھے اور اس سے بھی زیادہ‘غصے میں چار ہزار کا فرق۔ بہرحال‘ سیاستدانوں کا فارمولا ہے۔قوم دو چار سال گندم کھانے سے پرہیز کرے‘مر تو نہیں جائے گی۔ ٭٭٭٭