روس عالمی سطح پر ایک غیر معمولی مقام اور اَثرورسوخ کا حامل ہے۔ اَلبتہ صدر ولادی میر پیوٹن کی قیادت میں روس نے بارہا یہ ظاہر کیا ہے کہ اَگر اِسے عالمی نظام میں کھڈے لائن لگانے کی کوشش کی گئی تو اس کے پاس بین الاقوامی نظام کو غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت ہے۔ جس کی واضح مثال روس کے یوکرائن پر کیے گئے ،حالیہ حملہ ہے جس کے نتیجے میں شروع ہونے والی یوکرائن اور روس کے مابین جنگ ابھی تک جاری ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ اور اب یورپ جیسی جگہوں پر اپنی فوجی طاقت کے مظاہرے اور طاقت کی حرکیات کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں کا وہ مظاہرہ نہیں کیا ہے جس کی اس جیسی فوجی طاقت سے توقع تھی۔ روس نے جس کارکردگی کا مظاہرہ یوکرائن میں کیا ہے اس سے عمومی تاثر یہ ملتا ہے کہ روسی فوج کسی بھی چیز میں عملی طور پر نااہل ثابت ہوئی ہے البتہ یوکرائن کے اہم اِنفراسٹرکچر سمیت ملک کی شہری آبادی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اَب روس کے پاس یورپ میں اَمریکی بالادستی کو چیلنج کرنے کے لیے فوجی طاقت کا فقدان ہے، جبکہ عالمی سطح پر تو کوئی بھی — خاص طور پر نیٹو اتحادی نہیں — روس کی جوہری صلاحیتوں کو نظر انداز نہیں کر رہا ہے، جس کا ثبوت نیٹو ممالک کا جنگ میں براہِ راست مداخلت سے انکار ہے۔ دوسری طرف ماسکو اِیشیا، اَفریقہ، لاطینی اَمریکہ اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے ہتھیاروں کی فروخت اور فوجی سطح کے تعلقات کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جب تک یورپ نے روسی توانائی کی فراہمی پر اپنا انحصار ڈرامائی طور پر کم نہیں کیا، روس کے ایندھن کی یورپ کو بڑے پیمانے پر برآمدات نے ماسکو کو اضافی مالی فائدہ پہنچایا ہے۔ ماسکو کے عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے باوجود صدر پیوٹن کو داخلی محاذ پر کچھ دھچکے لگے ہیں۔ اگرچہ وہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے روسی سیاسی منظر نامے پر حاوی ہیں لیکن یوکرائن کی جنگ سے پہلے ہی روس کی معیشت کے سست روی کی وجہ سے ان کی مقبولیت کم ہو گئی تھی، خاص طور پر 2018 میں پنشن اصلاحات کی ایک انتہائی غیر مقبول کوشش کے بعد پیوٹن کے دیرینہ سیاسی مخالفین کے لیے تنقید کے راستے کھل گئے خصوصی طور پر آئینی مدت کی حد کے باوجود 2024 میں ان کی موجودہ صدارتی مدت ختم ہونے کے بعد اقتدار پر فائز رہنے کی کوشش صدر پیوٹن کی غیر مقبولیت اور سیاسی عدم اِستحکام کا سبب بن سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران گومگو کی کیفیت اور ملے جلے پیغامات کے دور کے بعد، صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اپنے دورِ صدارت کے ابتدائی مہینوں میں روس کے سائبر رویے کے جواب میں پابندیوں کا اعلان کیا لیکن نیو START جیسے دو طرفہ جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدے کی تجدید بھی کی۔ جون 2021 میں روسی صدر پوٹن کے ساتھ سربراہی اجلاس منعقد کرنے کے بائیڈن کے فیصلے کو روس کے ساتھ تعمیری طور پر کام کرنے کی خواہش کے مزید اشارے کے طور پر دیکھا گیا، خاص طور پر سائبر کرائم جیسے مسائل پر۔ لیکن پیوٹن کے یوکرائن پر حملے نے واضح کر دیا ہے کہ وہ تعلقات کو ٹھوس اور مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے میں کوئی فائدہ نہیں دیکھتے جبکہ یوکرائن پر حملے کے جواب میں امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں نے اب صدر پیوٹن کے داخلی چیلنجوں میں اضافہ کر دیا ہے۔اَگرچہ اِس کالم میں عالمی سیاست میں روس کے کردار کا تفصیل سے احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے اَلبتہ مستقبل کی بین الاقوامی سیاست میں روس کے کردار کے متعلق اَہم سوالات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔مہینوں کی کشیدگی اور خطرے کی گھنٹی کے بعد، فروری 2022 کے اواخر میں روس کا یوکرائن پر حملہ ایک جھٹکے صدمے کے طور پر زرور سامنے آیا، لیکن حیران کن نہیں۔ اس کے بعد کے ہفتوں میں، روسی حملہ یوکرائن کی شدید مزاحمت کے سامنے جھک گیا، بلکہ دفاعی ماہرین کے مطابق روس کو حکمت عملی، تزویراتی اور لاجسٹک غلطیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ یوکرائن کے خلاف روس کی برق رفتار فتح — جس کی توقع کی جارہی تھی — روسی اور بہت سے مغربی فوجی تجزیہ کاروں کی نظر میں یہ تنازعہ دستبرداری کی جنگ بن گیا ہے، جس میں شہری آبادی کے مراکز پر وحشیانہ اور اندھا دھند روسی حملوں کے ساتھ ساتھ جنگی جرائم کے الزامات بھی شامل ہیں۔ دریں اثنا، تنازعات کے ساتھ ساتھ روس پر مغربی پابندیوں کا نتیجے میں، خوراک اور توانائی کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کی بدولت بڑھتے ہوئے اخراجات کا دباؤ عالمی سطح پر پھیل گیا ہے، بلکہ عالمی سطح پر اَثرورسوخ کے لیے ایک سفارتی جنگ شروع ہوگئی ہے جو واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان سرد جنگ جیسے تعطل کی بازگشت ہے۔اَگرچہ روس اب ایک بڑی طاقت نہیں ہے، لیکن اس نے عالمی معاملات میں اپنے وزن سے بڑھ کر کام کرنے کے تخلیقی طریقے ڈھونڈلیے ہیں۔ صدر پیوٹن کی قیادت میں، روس نے رکاوٹوں پر قابو پا لیا ہے اور دنیا بھر میں اپنے اثر و رسوخ کو دوبارہ قائم کیا ہے۔ لیکن تزویراتی مہارت کے لیے اپنی شہرت کے باوجود، پوٹن کا نقطہ نظر دور اندیشی سے زیادہ موقع پرستی اور ایڈہاک اِزم پر مشتمل نظر آتا ہے۔ کیا روس اپنی کسی بھی سابقہ کامیابی کو خارجہ پالیسی کے لیے ایک پائیدار اور مربوط انداز میں تبدیل کر سکتا ہے؟ خاص طور پر یوکرائن کی جنگ کے بعد، یہ کہنا قبل اَز وقت ہے۔ ماسکو نے بیجنگ کے ساتھ اَپنے اِقتصادی اور فوجی روابط بڑھانے کے لیے اقدامات کیے ہیں، لیکن اب روس کے خلاف امریکی اور یورپی پابندیوں کی موجودگی میں دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات سب سے زیادہ اَہمیت اِختیار کرچکے ہیں۔ جبکہ چین یوکرائن کی جنگ پر روس کی بیان بازی سے حمایت جاری رکھے ہوئے ہے البتہ دونوں ملکوں کے مابین شراکت داری کی قدر بیجنگ کے حق میں تیزی سے غیر متوازن ہوتی جا رہی ہے۔صدر بائیڈن نے اَمریکہ اور روس کے باہمی تعلقات کے لیے روایتی نقطہ نظر پر مشتمل پالیسی اِختیار کرنے کا وعدہ کیا، جس میں ممکنہ اور حتی کہ ضروری تعاون کے شعبوں کو مجروح کیے بغیر صدر پیوٹن کی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یوکرائن پر حملے نے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو جنگی بنیادوں پر ڈال دیا ہے، جس میں جلد بہتری کی امید کم نظر آتی ہے۔ ٭٭٭٭٭