یہ ایک دِن کا واقعہ ہے کہ ہمارے وزیرِ اعظم نے ہمیشہ کی طرح بہت ’’شاندار اور انوکھی‘‘تقریر کی۔فرمایا’’نوجوان تنخواہ اور پنشن والی نوکری کے پیچھے نہ بھاگیں،ایسی نوکری کا مطلب اپنی صلاحیتوں کو تباہ کرنا ہے،ذہنی غلام کبھی ترقی نہیں کرسکتا،آزاد ذہن ہی نئی سوچ ،نئے راستوں کا تعیّن کرتے ہیں ،نوجوانوں کوآزادی دینے والا معاشرہ ہی آگے بڑھتا ہے،چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے بعد کامیابی آپ کا مقدر بنتی ہے‘‘ اُسی دِن یک عجیب سا لفظ’’جھائو‘‘میرے مطالعہ میں آیا۔ میری کم علمی کی بدولت اس کے معانی معلوم نہ تھے،یوں اِدھر اُدھر سے اس لفظ کا تعاقب کیا تو معلوم پڑا کہ یہ ایک خودرَو پودے کا نام ہے۔جس کی پرداخت اُن مقامات پر ہوتی ہے ،جہاں پانی کا باقاعدہ بندوبست نہیں ہوتااور جس کی پیدائش کا مقام زراعت کے قابل بھی نہیں ہوتا۔یہ پودا کسی بنجر جگہ ،ریت کے ٹیلوں اور دریا کے کناروں پر جھنڈ کی صورت اُگ پڑتا ہے۔یہ ذائقے میں کڑوا ہوتا ہے ،یوں اس کو، کوئی جاندار چیز کھا نہیں سکتی،البتہ یہ انسانوں کے بڑے کام آتا ہے ،اس کی ٹہنیاں، ٹوکریاں بنانے اورلکڑی ایندھن کے طورپر کام آتی ہے۔قدیم حکمت میں ،اس کے پتے اور جڑوںکا استعمال چند بیماریوں کے علاج میں ہوتا تھا ۔اس پر سفید اور گلابی رنگت کے پھول بھی آتے ہیں ،جو اگست سے فروری تک رہتے ہیں۔یہ پاکستان میں بہ کثرت پایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ایک خودرَو پودا ہے۔ ’’جھاؤ‘‘جہاں ایک پودے کا نام ہے ،وہاں اس کا ایک اور معانی بھی ہے ،یہ رطوبت کی اُس سخت تہہ کو کہتے ہیں ،جو جسم پر زخم کے بعد مواد کے رِسنے کے بعد بن جاتی ہے۔جب تک زخم مکمل طور پر ٹھیک نہ ہوجائے ،اس تہہ کو ہٹانا مشکل ہو جاتا ہے۔اگر پائوں پر چوٹ آئی ہے ،وہاں مواد کی تہہ بن گئی ہے ،تو اُس کو کھرچنے کے لیے عام گھروں میں کھردے پتھر کا استعمال کیا جاتا ہے ،پتھر کا یہ ٹکڑا ’’جھانواں‘‘کہلاتا ہے ،یعنی ’’جھائو‘‘کا مواد اپنے اندر جذب کرنے والا پتھرکا ٹکڑا۔ محض مَیں ہی نہیں ،یہاں میرے ایسے ہزاروں، لاکھوں بلکہ کروڑوں ’’جھائو‘‘ ہیں۔ خودرَور پودے ہیں، جڑی بوٹیاں یا بیلیں،یا پھر پتھر کے کھردرے ٹکڑے … ان کی حیثیت کیا ہوسکتی ہے؟ میرے ہمسائے میں ایک خاتون رہتی ہے ،جو اپنی زندگی کی لگ بھگ ساٹھ بہاریں دیکھ چکی ہے ۔ایک دِن صبح سویرے دروازہ بجا،جا کر دیکھا تو وہ کھڑی تھی ،ہاتھ میں درخواست تھی۔جو اُس نے میرے ہاتھ میں تھمادی اور کہا کہ فلاں جگہ دیتے جانا۔مَیں نے تحریر پر نظر ڈالی تو لکھا تھا’’میرے گھر کے سامنے بہت سارے خودرَو پودے ،جڑی بوٹیاں اور بیلیں پیدا ہوگئی ہیں جنہوں نے بہت ہی گند مچارکھا ہے ،نیز پیڑوں کی ٹہنیاں بڑی بڑی ہو کر گھرکے اندر گھسی چلی آرہی ہیں ،براہِ کرم خودرَو پودوں ،جڑی بوٹیوں اور بیلوں کا آکر صفایا کیِا جائے اور پیڑوں کی بڑی ٹہنیوں کو کاٹا جائے‘‘اُس روز درخواست متعلقہ جگہ جمع کروا کر ،جب دفتر پہنچا تو یوں لگاکہ کہیں راستے میں خود کو چھوڑ آیا ہوں۔جس شخص کے ہاتھ میں درخواست تھمائی ،اُس کی درانتی جیسی مونچھیں تھیں۔یوں لگا،جیسے یہ اِدھر سے بیٹھ کر ہاتھ بڑھاکر اپنی مونچھوںسے خودرَو پودوں ،جڑی بوٹیوں اور بیلوں کا صفایا کردے گااور پیڑوں کی ٹہنیوں کو کاٹ پرے کرے گا۔اُس روز باربار دھیان ہاتھ ،پیروں اور ٹانگوں کی جانب جاتا،لگتا جیسے اپنی ’’سپاری ‘‘دے کر آیا ہوں۔اُس روز کئی بار اپنے ساتھ مزدوری کرنے والوں کو کہتے کہتے رُکا کہ شاید کل مزدوری پر نہ آسکوں ،سوچتا کہ شام کو گھربھی جاسکوں گا؟وہ مہینہ بھر مزدوری کی اُجرت کا دِن تھا۔اُجرت پاتے ہی بھاگم بھاگ گھر پہنچابیوی کے ہاتھوں پر نئے نوٹ رکھے تو وہ مسکرا اُٹھی،مگر مَیں بجھ سا گیا،یوں لگاکہ دونوں ہاتھ ہی نہیں ہیں،تاہم بیوی کی مسکراہٹ گھر کی ایک ایک شئے میں پڑتی محسوس ہوئی۔اگلے روز صبح سویرے پھر دروازہ بجا،کھولا،تو سامنے وہی خاتون کھڑی تھی’’درخواست جمع کروادی تھی؟‘‘اُس نے پوچھا۔مَیں نے اثبات میں جواب دیا،وہ دُعادیتی واپس ہولی۔ مَیں نے بیوی سے کہا ’’یہ لوگ خودرَو پودوں ،جڑی بوٹیوں اور بیلوں کے خاتمے کی درخواست کیوں جمع کرواتے ہیں؟حالانکہ ان کی زندگی ہی کتنی ہوتی ہے؟‘‘بیوی بولی’’یہ جھاڑ جھنکار صاف ہونے کے لیے ہی تو ہوتا ہے‘‘مَیں چُپ ہو جاتا ہوں ،مگر سوچتا ضرور ہوں کہ یہ جھاڑجھنکارپھر پیداہی کیوں ہوتا ہے؟میری سوچ کو وہ خاتون پڑھ لیتی ہے ،جس نے درخواست دی تھی ،وہ بول اُٹھتی ہے’’تم نے ’’ہائوٹووان‘‘ گائوں کے بارے نہیں سناکہ جس کوخودروپودوں ،جڑی بوٹیوں اور بیلوں نے کھالیا ہوا ہے؟ان کے نیچے آکر گھر دَب گئے ہیں۔گائوں کو جانے والی پگنڈنڈیاں تک ختم ہو چکی ہیں ‘‘ مَیں اُس کو بتاتاہوں کہ’’ ایسا اُس وقت ہواجب گائوں والوں نے گائوں کو چھوڑ کر شہرجا بسیرا کیا‘‘مگر وہ سنتی کب ہے؟اُس سے اگلے روز مَیں نے اُس گھر کے سامنے درانتی اور کلہاڑی چلنے کی آواز سنی۔باہر نکلاتو بوڑھی خاتون کھڑی مسکرا رہی تھی۔ یہاں زندگی ہی اُس کی ہے ،جس کی تنخواہ ہے اور پھر پنشن۔اُس کے اندر صلاحیتیوں کی بھلاکیااور کس کو ضرورت؟جنابِ وزیرِ اعظم !یہاں صلا حیتیوں کا نام زندگی نہیں ۔پھرجن کو ’’جھائو‘‘سمجھا گیا ہو،اُس کی صلاحیتیں کیا معانی رکھتی ہیں؟ذہنی غلام،آزادذہن،نئی سوچ،نئے راستوں کا تعیّن،نوجوانوں کو آزادی دینے والا معاشرہ، چیلنجز سے نبردآزماہونے کے بعد کامیابی…یہ سب الفاظ اور خوش کن تصورات بنجر اور غیر قابلِ کاشت زمین پر ’’جھائو ‘‘جیسے ہیں ۔خودرَو جڑی بوٹیاں اور بیلیں،گائوں خالی ہو یا اُس میں لوگ بستے ہوں ،یہ اُس گائوں کو دھیرے دھیرے اپنی لپیٹ میں لے کر کھاجاتی ہیں۔یا پھر ’’جھائو‘‘ زخم سے رِسنے والے مواد کی موٹی تہہ بن جاتے ہیں جن کو کھرچنے کے لیے نوکیلے پتھر کم پڑجاتے ہیں۔ جنابِ وزیرِ اعظم !آپ کا فرمایا بجا،مگر پہلے زمین کو بنجر ہونے سے تو بچائیں،جب ایسا ہو جائے گا تو’’جھائو‘‘پیدا نہیں ہوں گے اور اِن کے خاتمے کے لیے درخواستیں جمع نہیں کروائی جائیں گی۔