ایک سوال پر نوجوان صحافی دوست سے بات ہو رہی تھی۔چند دن پہلے کسی نجی تعلیمی ادارے میں ایک لڑکی نے اپنے ساتھی طالب علم کو باقاعدہ فلمی پوز بنا تے ہوئے گھٹنا زمین پر رکھ کر پروپوز کیا اور پھول پیش کئے، جواب میں لڑکا جوش میں آ کر لڑکی سے بغل گیر ہوگیا۔یہ کام سب کے سامنے کیا گیا اور درجنوں لڑکے لڑکیاںگھیرا ڈالے خوشی خوشی تصویریں اور ویڈیوز بنا رہے تھے۔ ویڈیو اور تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔ ان پر بحث مباحثے ہوتے رہے، زیادہ تر نے مخالفت میں اور کچھ نے نوجوان جوڑے کے حق میں پوسٹیں کیں ۔یہ بحث سوشل میڈیا کے سٹینڈرڈ سے اب پرانی ہوگئی ہے۔ بات نوجوان فیس بکی لکھاری رانا تنویر عالمگیر کی نئی کتاب’’ 22ویں گرید کے دانشور‘‘سے شروع ہوئی تھی۔ رانا تنویر خاصا سرپھرا قسم کا انقلابی فیس بکی ہے، اس نے پہلی دو کتابیں ملا ئیت اور مولویوں کے خلاف لکھیں، پہلی کا تو نام ہی خاصا ہنگامہ خیز تھا،’’اسلام کو مولوی سے بچائو۔‘‘رفتہ رفتہ نوجوان میں اعتدال آ رہا ہے، جارحانہ انداز تحریر بھی بدل رہا ہے۔یہ کتاب اس نے فیس بک کے ایکٹوسٹوں اور بزعم خود انشوروں کے حوالے سے لکھی ہے، اس میں نئے فیس بک یوزرز کے لئے مفید معلومات بھی ہیں اور فیس بک پر فیک آئی ڈی بنا کر جو مختلف کھیل کھیلے جاتے ہیں، انہیں بھی جرات سے بے نقاب کیا ہے۔ اس دلچسپ کتاب میں سنسنی خیزی شامل نہیں اور جو چند ایک معروف سوشل میڈیائی سکینڈل بیان ہوئے،ان میں احتیاط کے ساتھ فرضی نام برتے گئے۔وجہیہ پبلشر اردو بازار، لاہور نے اسے شائع کیا ۔ میں اپنے ایک ساتھی صحافی کو کتاب کے بارے میں بتا رہا تھا۔بات فیس بک سے سوشل میڈیا کے عمومی رجحانات کی طرف چلی گئی اور پھر وہی پھول دینے والی لڑکی اوراسے گلے لگانے والے محبوب کا قصہ چھڑا ۔ صحافی دوست میرے ہم خیال تھے کہ اس طرح کا واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ ثقافتی تبدیلیاں بہت تیزی سے آ رہی ہیں۔ چند ہی برسوں میںرہن سہن، لباس وغیرہ میں حیران کن تبدیلی آ چکی ہے۔بتانے لگے کہ مال روڈ پر واقع ایک مشہور آرٹ کالج میںکیمرہ وغیرہ لے جانے پرسختی سے پابندی ہے اور وہ کسی بھی صورت میں اپنے کھلے ڈلے بے تکلفانہ ماحول کی تصویر نہیں بنانے دیتے ۔انہوں نے نکتہ اٹھایا کہ انتہائی تیز رفتار ثقافتی یلغار کے سامنے اس طرح کا عمومی احتجاج اور ناخوشی کی اہمیت نہیں اور ہر اعتراض ریلے کے ساتھ بہہ جائے گا۔ یہ نکتہ وزنی ہے۔ امکانات موجود ہیں کہ جو اخلاقیات،حیا، شرم ، سماج کی تہذیبی تربیت اور اپنے کلچر کو ملحوظ رکھنے کی باتیں کر رہے ہیں،وہ سب جلد یا بدیر غیر متعلق ہوجائیں۔ ہم سے پچھلی نسلوں کے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ ایسا ہی ہوا۔ لباس کے حوالے سے بھی تہذیب اور رکھ رکھائو تبدیل ہوتا رہا۔ صرف پچاس ساٹھ سال پہلے تک لوگ اپنے سر پر ٹوپی اوڑھنا بہت ضروری سمجھتے تھے، آج صرف ٹھیٹھ مذہبی لوگوں کے سوا اور کون ایسا کررہا ہے۔ اچکن، جناح کیپ وغیرہ تیس پینتیس سال پہلے عام تھی ،ا ٓج کل دولہا اپنی شادی میں شیروانی پہن لے تو الگ بات ہے، ورنہ چند ایک بزرگوں کے سوا کوئی استعمال نہیں کرتا۔ میرے والد مرحوم ہمیشہ جناح کیپ اوڑھا کرتے ،میں نے استعمال نہیں کی۔ سوال پھر یہ ہے کہ کیا مزاحمت ترک کر دینی چاہیے؟ جو کل ہونا ہے، اسے آج ہی ہونے دینا چاہیے؟ میری رائے میں ہر سماج میںبعض چیزیں قدیم رسوم ورواج یا علاقائی کلچر کی بنیاد پر شامل ہوجاتی ہیں، ان کا مذہب سے تعلق نہیں ہوتا۔قبائلی ، کوہستانی ،دیہی انا اسے لازمی اصول بنا دیتی ہے۔ اپنی بنیاد میں چونکہ وہ غلط ہوتا ہے، اس لئے تبدیلیوں کی تیز ہوا چلے تو یہ اکھڑ کر دور جا گرتا ہے۔ مثال کے طور پر بچیوں کو تعلیم نہ دلوانا، شادی میں ان کی پسند ملحوظ نہ رکھنا، وراثت میں حصہ نہ دینا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب چیزیں غلط ہیں اور بدل رہی ہیں، وقت آئے گا کہ یہ سب ماضی کی کہانی لگے گی۔ یہ روحِ عصرکے خلاف ہے۔ روح عصر یعنی اجتماعی انسانی شعور اورانسانی سماج کا غالب رواج سمجھ لیں۔ میں جمہوریت کو روحِ عصرسمجھتا ہوں،مرد اور عورت کو مساوی حقوق دینا بھی یہی ہے۔روح ِعصر میں کچھ چیزیں اخلاقی اعتبار سے درست ہوتی ہیں۔ مذہب کی اعلانیہ یا خفی تائید انہیں حاصل ہوجاتی ہے۔اسلام نے غلامی کی حوصلہ شکنی کی،غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک رکھنے کی ترغیب دی، اس کے بے پناہ فضائل بتائے۔ ایسا تب ہوا جب غلام انسانیت کا بدترین طبقہ تھے۔ ایک وقت آیا جب اجتماعی انسانی شعور اس درجے تک پہنچا کہ غلامی ختم کر دی گئی۔ مذہب تو پہلے ہی یہی چاہتا تھا، روح عصر کو مذہب کی تائید مل گئی۔ آج غلامی کی وہ شکل کہاں بچی ہے؟ شائد کہیں نہیں۔ روح عصر نے آخر کار غالب آ جانا ہے،اس سے لڑائی بے کار ہے۔اس سے ٹکریں مار کر بے حال ہونے کے بجائے اس کا رخ بدلنے کی کوشش ، اس میں جزوی ترمیم کی سعی عقلمندی ہے۔ جیسے ہمارے ہاں ہوا کہ جمہوریت ٹھیک ہے، مگر پارلیمنٹ کو قرآن وسنت کے خلاف قانون منظور کرنے کا حق حاصل نہیں۔ یہ درست حکمت عملی ہے۔ پیار، محبت انسانی جذبے ہیں، جمالیاتی ذوق فطری ہے۔ انسان خوبصورت مناظر، شخصیات اوررویوں سے متاثر ہوتا ہے۔ محبت ایک ایسی کونپل ہے جو سخت دل میں بھی پھوٹ آتی ہے۔ پیار کرنے، چاہنے، اپنی پسند سے شادی کرنے پر قدغن نہیں۔ ہمارا دین پسند کا حق خاتون کو بھی دیتا ہے، افسوس کہ ہمارے سماج میں کئی بار عملاً یہ حق نہیں دیا جاتا اور والدین تصور کرتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ بیٹیاں آنکھیں بند کر کے قبول کریں۔ظاہر ہے یہ غلط اور غیر شرعی روش ہے۔اسلامی تہذیب کے دو تین بنیادی جوہر ہیں، ان میں سب سے اہم حیا ہے۔ آقاﷺ کا فرمان ہے جس کا مفہوم ہے کہ ہر دین کا ایک ایک جوہر ہوتا ہے،حیا اسلام کا جوہر ہے۔حفظ مراتب یعنی بڑوں کا ادب بھی اسلامی معاشرے کا مرکزی جوہر ہے۔تیسرا اہم جوہر’’ تحفظ فروج‘‘ یعنی اپنی عصمت کی حفاظت ہے۔ اسلامی معاشرہ ہر مرد وعورت سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ نفس کا غلام بن کر بدکاری کرنے کے بجائے اپنے اوپر ضبط کریں اورناجائز جسمانی تعلق سے ہر حال میں دور رہیں۔ جس واقعہ کا اوپر ذکر ہوا، اس میں تین چاربڑی غلطیاں ہوئیں۔ حیا کا بنیادی تقاضا بری طرح مجروح کیا گیا۔ ایک ہی تعلیمی ادارے میں پڑھنے والے لڑکے ، لڑکی کا ایک دوسرے کو پسند کرنا کوئی انوکھی بات نہیں۔ کوئی بھی معقول شخص اپنی پسند، محبت کا تماشا سربازار نہیں لگاتا۔ ہم سب اس فیز سے گزرے ہیں، محبت، رومان زندگیوں کا حصہ رہا ہے،اس سے انکار نہیں، مگر محبت کا بھی ایک قرینہ، سلیقہ ہے۔ انتہائی گھٹیا اور عامیانہ ذہن والے لوگ ہی اس طرح کا تماشا لگاتے ہیں۔ حفظ مراتب بھی ہمارے سماج کا بہت اہم حصہ ہے۔ ہمارے ہاں فیملی سے مراد فرد نہیں بلکہ اس کے والدین، بہن بھائی لئے جاتے ہیں بلکہ بیشتر اوقات خاندان مزید وسعت اختیار کر لیتا ہے۔ پسنداور محبت کی صورت میں اپنی اہل خانہ کی وساطت سے دوسرے فریق کے اہل خانہ سے معاملہ بڑھایا جاتا ہے۔ یہ اپنے بڑوں کو تکریم ، عزت دینے کا ایک طریقہ ہے۔ یہاں تو لگتا ہے کہ اس بچی نے اپنے ماں باپ کو اپنی زندگیوں سے کٹ کر دیا اور خود ہی حتمی فیصلہ سنا ڈالا۔ اس طرح کا راستہ اپنانے والے لوگ عموماً تمام قواعد وضوابط توڑ کر بہت آگے چلے جاتے ہیں، جس پر بہت بار تاحیات پچھتانا پڑتا ہے۔ چوتھی بڑی غلطی تعلیمی ادارے کا تقدس پامال کرنا ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے علاقوں میں ابھی تک لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹی بھیجنے کی مزاحمت ہوتی ہے کہ وہاں مخلوط ماحول میں بگڑنے کا خدشہ ہے۔ ایسی وائرل ویڈیوز، ایسا کچا جذباتی نامعقول رویہ کتنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کرے گا، یہ اس جوڑے کو قطعی اندازہ نہیں۔ ہم جیسے لوگ جو اس بات کو پسند نہیں کررہے ، کیا ہمیں ہتھیار ڈال دینے چاہئیں کہ ثقافتی یلغار کے ریلے کو نہیں روک پائیں گے؟ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ درست کہ مغرب کی بے پناہ قوت اس یلغار کے پیچھے ہے، مگر ہمیں اپنی بات کہنی چاہیے، معقولیت اور دلیل کے ساتھ۔ ہمیں سماج کی تہذیبی تربیت کرنا ہوگی۔ اپنے بچوں کو اعتماد دینے کے ساتھ ان کی شعوری تربیت کرنا ہوگی۔ ہمیں ان میں حقیقی دینی سمجھ دینا پڑے گی۔ جبر، سختی اور تشدد کے بجائے سلیقے اور قرینے کے ساتھ مدلل بیانیہ درکار ہوگا۔ بچوں پر ناروا پابندیاں نہیں لگنا چاہیئں، انہیں جائز حقوق اور سپیس دیں۔ جس بات سے منع کریں، اس کے بارے میں پہلے سمجھائیں اور دلیل دیں ۔ یہ سیلف سینسر کا دور ہے۔ بچوں کو قائل کریں کہ کن باتوں سے دور رہنا اور کن چیزوں پر استقامت سے قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس یلغار کے خلاف بیرئر بنانے ہوں گے، مگر ان کے کچھ تقاضے ہیں، وہ سمجھنے لازم ہیں۔ یاد رکھیں کہ ایسے معاملات میں پیکیج ڈیل ہوتی ہے۔ آپ خاص قسم کا لبرل، سیکولر طرز زندگی گھر میں رائج کریں اور پھر سوچیں کہ کسی خاص معاملے میں بچے خالص دینی حکم کی پابندی کریں، ایسا نہیں ہوسکتا۔ اللہ ، رسول ﷺ کانام ہی گھر میں نہ لیا جائے، بچوں میں اپنے رب اور اپنے نبیﷺ کی محبت داخل نہ کی جائے اور پھر ان سے سیرت مبارکہ کی پیروی کی توقع کریں تو یہ ہماری ناسمجھی ہوگی۔