یہ عصر حاضرکے حوادث میں سے ایک سنگین حادثہ ہے اورموجودہ المیوں میں المیہ کہ ایک طرف بھارت مقبوضہ کشمیر میں سنگین جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے اورہر دن وہ اپنی پلکوں میں آزادی کاخواب سجائے ہوئے آشفتہ گاں، اسیران قفس اورخاک بسر کشمیریوں پر اپنے جرائم میں بے پناہ اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے۔سری نگر کی گلی وکوچوں میں سفاک بھارتی فوج دھاڑ اور چنگاڑ رہی ہے اور اس کی کھلی دہشت گردی سے ارض کشمیر لالہ گوں اورخون مسلم سے لالہ زارہے۔ ایک لاکھ کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے ،دس ہزار نوجوانوں کو گرفتاری کے بعد لاپتہ کرنے ، اربوں ڈالر کی املاک کو خاکستر کرنے، کشمیر کی اسلامی شناخت اقدار و روایات کو بری طرح پامال کرنے والے بھارت سے یہ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ مقبوضہ اورمتنازعہ علاقے کشمیر میں کس طرح عالمی فورم کا اجلاس منعقد کیا جا سکتا ۔ کیا یہ ایک واضح حقیقت نہیں ہے کہ دنیاکے لگ بھگ تمام ممالک بالخصوص جی 20 کے رکن ممالک سب کے سب خطہ کشمیرکو دیرینہ مسئلہ اور حل طلب تنازعہ مانتے ہیں لیکن نظر التفات سے نہ صرف عاری ہیںبلکہ بھارت کے پلڑے میں وزن بڑھا رہے ہیں۔ وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ تاریخی، تہذیبی، مذہبی، ثقافی، سیاسی، سماجی اور ہر ایک رشتے کے اعتبار سے کشمیر کا تعلق پاکستان سے ہے جبکہ بھارت سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔ ہاں البتہ دنیا کے ممالک میں کشمیر کے حوالے سے اگرکوئی تضاد پایا جاتا ہے تو وہ صرف اپروچ کا ہے یعنی دنیاکے اکثر ممالک مسئلہ کشمیر کے حوالے سے موقف رکھتے ہیں کہ یہ پاکستان اوربھارت کے مابین دوطرفہ تنازعہ ہے اس لئے دونوں باہم مذاکرات کے ذریعے اس تنازعہ کوحل کریں،مقبوضہ کشمیرمیں ہر نئی افتاد پر جب پاکستان احتجاج کرتا ہے تو وہ اشک شوئی کے لئے پاکستان اور بھارت کو یہی لیچکر دیتے ہیں۔جبکہ پاکستان اوراس کے دوست ممالک ترکی، ملائشیا،عرب وعجم کے مسلمان ممالک کے مشترکہ فورم ’’اوآئی سی‘‘ اور چین کا موقف ہے کہ تنازعہ کشمیر75برسوں سے اقوام متحدہ کے چارٹر پرموجود ہے اوراسے اس کی قرار دادوں کے مطابق حل کیاجانا چاہئے ان کا موقف ہے کہ اس مسئلے کو بدستو ر التوا میں رکھنے سے دوجوہری قوتوں کے درمیان تصادم کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا جس سے عالمی امن کوبھی خطرہ لاحق ہو سکتاہے۔ اس لئے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیرکو حل کرانے میں اپناکردار ادا کریں۔ کشمیر کی گھمبیرتا کے باوجود مودی کندھے تول تول تول کرکہتا ہے کہ کشمیر ہمارا ہے اور22 اور23 مئی کو کشمیر کے مرکزسری نگرجبکہ 24 مئی کو لداخ میں جی ٹونٹی کانفرنس منعقد ہو کر رہے گی۔سوال یہ ہے کہ بھارت دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کی تنظیم جی20 کی دھماچوکڑی کیوں مقبوضہ کشمیر میں ہی ڈلوا رہا ہے۔ بھارت دراصل مقبوضہ کشمیر کے تنازعے کی تاریخ تلپٹ کرتے ہوئے ارض کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کوسند جواز فراہم کرنے اوردنیا کے بڑی معیشتوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں دھوکہ دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے ۔ بھارتG-20 سربراہی اجلاس کا انعقاد صرف اس غرض سے مقبوضہ کشمیر میں کرانے پرمصر ہے تاکہ وہ دنیاکویہ دجل دے سکے کہ کشمیر اسی طرح بھارت کی کوئی ریاست ہے جس طرح بھارت کی دیگر29 ریاستیں ہیں۔وہ اس اجلاس سے کشمیر پر بین الاقوامی مزاج کواس حد تک بدلنا چاہتا ہے کہ سب بول پڑیں کہ کشمیر پربھارتی موقف درست ہے۔ سری نگر میںجی 20کانفرنس منعقد کرانے پرجہاں بھارت میں خوشی کا اظہار کیاجا رہا ہے گیا وہیںدوسری طرف پاکستانی عوام سمیت کشمیری مسلمان اس فیصلے پرچیں بجبیں ہیں۔سری نگر میںکسی بھی رد عمل کوکچلنے کے لئے بھارت نے پیشگی ظالمانہ اورسفاکانہ اقدامات اٹھانے کی مکمل منصوبہ بندی کر رکھی ہے اس حوالے سے سری نگر جو پہلے ہی فوجی چھائونی بن چکا ہے گن شپ ہیلی کاپٹر گشت کر رہے ہیں۔22 مئی سے 24 مئی تک کرفیوکاسماں قائم کیا جا رہا ہے اورکسی بھی شہری کوگھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ بھارت جموں و کشمیر کے عوام پر وحشیانہ مظالم سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کیلئے پوری دنیا کو گمراہ کرنے کی سازش میں مصروف عمل ہے جو کسی خطرناک منصوبے کی ایک اور تازہ کڑی ہے۔بھارت ایک اہم بین الاقوامی گروپ کی رکنیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر انٹرنیشنل کمیونٹی کو اصل حقائق سے دور رکھنے کیلئے اپنے زیر تسلط علاقے جموں و کشمیر میں اسلئے جی ٹونٹی ایونٹ کرا رہا ہے تاکہ وہ اپنے ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھا سکے۔ واضح رہے جی 20 عالمی معاشی فورم ہے جودنیا کے جی ڈی پی کا تقریباً 85 فیصد، عالمی تجارت کے 75 فیصد اور آبادی کے 60 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دنیا کی 20 ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی ترقی پذیر معیشتیں جی 20 بین الحکومتی فورم کی ممبر ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جنوبی ایشیا دنیا کی کل آبادی کا تقریباً % 25 انسانوں کا خطہ ہے اور منڈی کی معیشت کے دور میں اتنی وسیع اور ان ڈیپتھ مارکیٹ مسلمہ اہمیت کی حامل ہے جس کو نظر انداز کرنا کسی طور بھی ممکن نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭