شہناز رحمت نے کہا ہے آدمی کو آدمی سے اس قدر نفرت ہے کیوں۔بغض کینہ دشمنی غیبت جلن کی بات کر۔ بغض اور حسد کی آگ میں انسان خود جلتا ہے۔یہ آگ کس طرح اندر سے جلاتی ہے اس کا ایک نمونہ موقر اخبار میں شائع ہونے والی تحریر’’ پردہ داری اور تابعداری‘‘ ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان سابق امریکی اہلکار رابن رافیل سے ملتے ہیں تو ان پر پردہ داری اور تابعداری کا الزام دھر دیا جاتا ہے۔عمران خان کو امریکی سازش کا بیانیہ، میر جعفر ،میر صادق کے طعنے یاد دلائے جاتے ہیں۔یہی نہیں عمران خان کی حکومت مخالف تحریک کو امریکی سازش کا حصہ کہہ کر ملاقات کو ملکی خلفشار کے اگلے مرحلے سے جوڑ دیا جاتا ہے۔گزشتہ تحریر میں امریکی خاتون اول کے اعلیٰ، اوسط اور ادنیٰ درجے کے دماغ کے حوالے سے قول کا ذکر کیا تھا کہ اوسط ذہن رکھنے والے واقعات پر دانشوری چمکاتے ہیں ۔ عمران خان جس امریکہ پر اچھی بھلی چلتی حکومت کو گرانے اور پاکستان کو سیاسی اور معاشی بحران میں دھکیلنے کا الزام لگاتے ہیں اسی امریکہ کی سابقہ اہلکار سے ملاقات پر سوال تو اٹھیں گے ! مگر محض ایک ملاقات کو بنیاد بنا کر عمران خان کو پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کرنے، ان کو پاکستان کے خلاف امریکی سازش کا حصہ ثابت کرنے کی کوشش ناقابل فہم ہے۔جہاں تک امریکہ کے پاکستان کے کے معاملات میں مداخلت کا تعلق ہے تو اس کی تفصیل 2007ء سے 2015ء تک پاکستان، بھارت اور سائوتھ ایشیا کونسل آن فارن ریلیشنز کے سینئرفیلو رہنے والے ڈینیل مارکی نے اپنی کتاب {’’{No Exit From Pakistan ‘‘ میں بیان کر دی ہے توجہ طلب نقطہ یہ ہے کہ یہ کتاب 2013ء میں لکھی گئی مگر عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد ڈینیل مارکی کی یہ کتاب پاکستانی سیاست میں ہاٹ ایشو بنی ہوئی ہے یہاں تک کہ تحریک انصاف کے چاہنے والے ڈینیل کی کتاب کے اقتباسات کے حوالے دے رہے ہیں۔ ایک منظم ایجنڈے کے تحت پاکستانیوں کے ذہنوں میں یہ بات انڈھیلی جا رہی ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں امریکی خواہش شامل ہے۔سوشل میڈیا پر ڈینیل مارکی کا انٹرویو ایک ایجنڈے کے تحت ٹاپ ٹرینڈ بنایا گیا جس میں مارکی نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ نے قیام پاکستان کے وقت ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ پاکستان کو ترقی کرنے اور خودمختاری حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔پاکستان کو ایک کے بعد ایک بحران میں الجھایا جائے گا مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ بحران اس قدر نہ بڑھ جائے کہ امریکہ بھی اس کو کنٹرول نہ کر سکے۔یہی نہیں دور کی کوڑی لانے والوں نے سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن کے انٹرویو کا کلپ بھی ڈھونڈ نکالا ہے جس میں ہیلری یہ انکشاف کر رہی ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے تھے۔یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان شدید معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے ایسی ویڈیوز وائرل کرنے والے صرف اپنا موقف درست ثابت کرنے کے لئے پاکستانیوں کے جذبات کو آگ دے رہے ہیںبلکہ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے اس اقدام سے ملک مزید بحران کا شکار ہو گا۔ فرض کریں پاکستان کے سیاسی بحران کے پیچھے امریکی سازش کارفرما ہے تو کیا اس کا حل یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے مخالفین کو امریکی ایجنٹ ثابت کرے یا پھر تمام سٹیک ہولڈرز امریکی سازش کورد کرنے کے لئے مل کر حکمت عملی طے کریں؟ کسی دانشور نے کہا تھا کہ ہر جھوٹ میں بھی آدھا سچ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہر کوئی اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے یہاں سیاستدان ایک دوسرے کو یہاں تک کہ اسٹیبلشمنٹ کو ملکی حالات کا ذمہ دار ٹھہرانے پر اپنی اپنی توانائیاں صرف کر تے آئے ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر کے سوا کسی کو یہ کہنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، بے نظیر اور نواز شریف سب ہی پاکستان کے وفادار اور محب وطن تھے۔ سب نے ہی پاکستان کو جوہری قوت بنانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔مان لیا امریکہ پاکستان کو اپنے ایجنڈے کے لئے استعمال کر رہا ہے تو اس میں انہونی کیا ہے؟ ہر ملک دوسرے ملک کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے جس طرح امریکیوں کی اپنے ملک سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ وہ دنیا بھر کے ملکوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کریں اس طرح پاکستانیوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفاد میں فیصلے کریں۔ملکی مفاد میں فیصلے اسی صورت ہو سکتے ہیں جب پاکستانی اشرافیہ نا صرف عالمی حالات سے آگاہ ہو بلکہ حالات کی نزاکت کے مطابق باہمی اتفاق رائے سے فیصلے بھی کیے جائیں۔ پاکستان کی بدقسمتی کہیے یا صاحبان اقتدار کی عاقبت نااندیشی کہ ہمارے سیاستدان صرف اقتدار کے لئے مخالفین کو ملک دشمن، غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دینے سے پہلے ایک لمحے کے لئے بھی ملکی مفاد کا نہیں سوچتے۔ تحریک انصاف کے حامی عمران خان کے علاوہ کسی کو ملک کا خیر خواہ نہیں سمجھتے تو عمران کے مخالف ان کو ملکی سکیورٹی کے لئے خطرہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ صرف فوج کا ہی ایک ادارہ تھا جس کا عوام کی نظروں میں وقار تھا مگر اب سوشل میڈیا کے افلاطون عوام کے دلوں میں اس کے بارے بھی شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔ عمران سازش کے دوران نیوٹرلز کے نیوٹرل رہنے پر لتے لے رہے ہیں تو عمران مخالف نفرت اور بغض میں پردہ داری اور تابعداری کا ڈھونڈورا پیٹ رہے ہیں۔مقصد صرف اپنی اپنی انا کی تسکین ، اقتدار کی راہ ہموار کرنا یا اقتدار سے چمٹے رہنا ہے۔ جہاں تک بات امریکی سازش کی ہے تو پاکستان کی سلامتی کے ضامن ادارے ماضی میں بھی ایسی سازشوں کے باوجود ملکی مفاد میں فیصلے کرتے آئے ہیں اور کرتے بھی رہیں گے مگر ملک کے ساتھ اس سے بڑھ کر زیادتی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اپنے اداروں کو ہی کھوکھلا کرنے کی کوشش کی جائے اور اقتدار کوخیر و شر کی جنگ بنا دیا جائے جبکہ یہ خیر و شر کی نہیں ڈپلومیسی کی جنگ ہو سکتی ہے یا پھر اقتدار اور انا کی۔وہ شبنم شکیل نے کہا ہے نا! یہ خیرو شر کی جنگ نہیں ہے یہاں تو بس ٹکرائو ہو گیا ہے انا کا انا کے ساتھ