معزز قارئین!۔مَیں خرابیٔ صحت کی بنا پر بروقت کالم نہیں لِکھ سکا لیکن 9 نومبر کو بھارتی سپریم کورٹ کے ہندو چیف جسٹس مسٹر رنجن گوگی، کی سربراہی میں جسٹس شردھا وند بوبدے ، جسٹس دھننجیا یشونت چندراشُدھ ، جسٹس اشوک بھوشن اور (مسلمان) جسٹس عبداُلنذیر نے 6 دسمبر 1992ء کو ایودھیا کی ’’بابری مسجد ‘‘ کی شہادت اور متنازع ’’ رام مندر‘‘ کے حق میں فیصلہ کر کے جو، بھارت اور وِشنو دؔیوتا کے اوتار ، قدیم ایودھیا کے (268سے 330 قبل از مسیح تک )راجا رامؔ چندر کے نام کو جط طرح بدنام کِیا گیا ہے ، اُسے ، بقول ہندوئوں کے اپنے ’’دریائے گنگا‘‘( ہندی زبان میں ) ندی ؔگنگا ، کا ، پوترؔ ( مقّدس ) پانی بھی نہیں دھوسکتا۔ کئی سال ہُوئے ، مَیں نے ایک بھارتی فلم میں گنگا ندی ؔ کے کنارے شری رامؔ کو مخاطب کرتے ہُوئے ہندو لڑکیوں اور لڑکوں کو ناچتے اور ایک گیت گاتے ہُوئے سُنا تھا جس کا ’’مُکھڑا ‘‘ ( مطلع ) تھا … رامؔ تیری گنگا میلی ہوگئی! پاپیوں کے ، پاپ دھوتے ، دھوتے! یعنی۔ ’’ اے شری رام !۔ گنہگار لوگ اپنے اپنے گُناہ دھونے کے لئے گنگا ندیؔ میں نہانے آتے ہیں لیکن، اُن کے گُناہ اتنے زیادہ ہیں کہ اُنہیں دھوتے دھوتے گنگا ندیؔ خُود بھی میلی ہوگئی ہے ‘‘۔ چیف جسٹس سمیت چار جج صاحبان تو ہندو ہیں لیکن، مسلمان جسٹس عبداُلنذیر کا کیا بنے گا ؟۔ نذیر ؔ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کا ایک صفاتی نام ہے، جس کے معنی ہیں ’’ بندوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والے ‘‘ ۔ پنجابی کے کسی شاعر نے کہا تھا کہ … خُدا ، جِس نُوں پکڑے ، چُھڑا لئے محمدؐ ! محمدؐ دے پکڑے چُھڑا کوئی نئیں سکدا! معزز قارئین!۔ مختصر واقعات یہ ہیں کہ ’’ 6 دسمبر 1992ء کو بھارت کے مختلف علاقوں کے تقریباً 25 لاکھ دہشت گرد ہندوئوں نے ایودھیا میں جمع ہو کر صدیوںسے قائم بابری مسجد کو شہید اور دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو بھی شہید کردِیا تھا۔ بہت سوں کو تو، زندہ جلا دِیا گیا تھا ، جن میں عورتیں ، بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے ‘‘۔ اِس سے قبل نومبر 1992ء میں ہندوئوں کی انتہا پسند تنظیم ’’ راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ ‘‘ ( R.S.S) کی کوکھ سے نکلی ہُوئی دوسری دہشت گرد جماعتوں ، ’’بھارتیہ جنتا پارٹی ، وِشو ہندو پریشد، شیو سینا اور بجرنگ دَل ‘‘کے عہدیداروں اور کارکنوں نے لال کِشن آڈوانی اور دوسرے انتہا پسند ہندو لیڈروں کی قیادت میں رتھ یاترؔا نکالی تھی جس کا مقصد بابری مسجد کو شہید کر کے اُس جگہ رام مندر تعمیر کرنا تھا۔ اُن دِنوں ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے پی۔ وِی ۔ نرسیما رائو بھارت کے وزیراعظم تھے ۔ انگریزوں سے آزادی کے لئے 1885ء میں ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ قائم ہُوئی تو، اُس میں مختلف مذاہب کے لوگ شامل تھے لیکن، اُس پر ہندو غالب تھے اور جب ہندوئوں نے بھارتی صوبہ گجرات کے شری موہن داس کرم چند گاندھی کو اپنا باپوؔ بنا لِیا اور اُنہیں ’’مہاتما ‘‘ بھی کہنا شروع کردِیا۔گاندھی جی نے آزادی کے بعد بھارت میں ’’ رام راج‘‘ قائم کرنے کا اعلان کِیا تھا۔ ’’ راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ ‘‘ (جس کا قیام1925ء میں ہُوا) ور اُس کی کوکھ سے نکلی ہُوئی دوسری جماعتوں کا کردار دہشت گردی کے سِوا اور کچھ نہیں تھا ۔یوں بھی وہ تباہی و بربادی کے دیوتا شواؔ کو مانتے ہیں ؟ ۔ علاّمہ محمد اقبالؒ نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا تصّور پیش کرنے سے پہلے راجا رام ؔ کی عقیدت میں ۔ ’’ رام‘‘ ہی کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی جس کے صِرف تین شعر پیش خدمت ہیں … ہے رام کے وجُود پہ ہندوستاں کو ناز! اہلِ نظر سمجھتے ہیں ، اُس کو اِمامِ ؔہند! …O… اعجاز اُس چراغ ہدایت کاہے یہی! روشن ترسحر ہے ،زمانے میں شامِ ہند! …O… تلوار کا دھنی تھا ، شجاعت میں فرد تھا! پاکیزگی میں ، جوشِ محبت میں فرد تھا! بیرسٹر محمد علی جناحؒ بھی ہندوستان کی آزادی کے علمبردار تھے ۔ آپؒ بھی ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ میں رہے ۔ مسٹر جناحؒ ، گاندھی جی کو مہاتما ؔگاندھی نہیں کہتے تھے ۔ مسٹر گاندھی ؔکہتے تھے اور مسٹر گاندھی ؔ بھی بیرسٹر محمد علی جناحؒ کو مسٹر جناحؒ ۔ مسلمانوں کی الگ جماعت ’’ آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ 1906ء میں قائم ہُوئی تھی لیکن، جب علاّمہ اقبال ؒ کی خواہش اور مطالبے پر بیرسٹر محمد علی جناح ؒ نے پاکستان کے لئے الگ وطن حاصل کرنے کے لئے اپنی جدوجہد تیز کردِی تو، ملّت ِ اسلامیہ نے اُنہیں قائداعظمؒ کا خطاب دِیا۔ انگریزوں اور ہندوئوں نے تو، مسلمانوں کے الگ وطن کے قیام کے لئے مخالفت کرنا ہی تھی لیکن، گاندھیؔ جی کے چرنوں میں بیٹھ کر ’’ جمعیت عُلمائے ہند‘‘ کے عُلماء نے بھی مخالفت کی اور اُنہوں نے علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے جاری کئے۔ قیام پاکستان کی تحریک میں متعصب ہندوئوں اور سِکھوں نے بھارت کے مختلف صوبوں میں 18 لاکھ سے مسلمانوں کو شہید کِیا اور دو لاکھ سے زیادہ مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی عصمت دری کی تھی۔ مشرقی (اب بھارتی ) پنجاب میں 10 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کِیا گیا اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی عصمت دری کی گئی تھی۔ بھارت میں جس پارٹی کی بھی حکومت رہی، اُس کے دَور میں مسلمانوں کو ہندوئوں کے مساوی ، مذہبی، سماجی اور سیاسی حقوق نہیں دئیے گئے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم (براہمن ذات کے ) پنڈت جواہر لعل نہرو نے خُود مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقوام متحدہ سے رجوع کِیا تھا لیکن، اُن کے بعد ہر بھارتی وزیراعظم نے کشمیریوں کو اُن کے اِنسانی حقوق سے محروم ہی رکھااور مئی 2016ء سے تو ( تباہی و بربادی کے دیوتا )۔ ’’ بھگوان شوا‘‘ کے پُجاری اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے متعلق شری نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ میں تو، مسلمانوں ، خاص طور پر کشمیریوں مسلمانوں سے جو کچھ ہُوا وہ، بھارت کے ہر سیاست دان کے ماتھے پر ’’کلنک کا ٹیکہ‘‘ ہے ۔ "Saarc" کا ڈھکوسلا! معزز قارئین!۔ اِس سے قبل اپنے پِتا ( ایودھیا کے ) راجا دشترتھ کی چھوٹی رانی ، (اپنی سوتیلی ماں )کیکئی ؔ کو خُوش کرنے کے لئے رام ؔجی نے جب، 14 سال تک ’’ بن باس ‘‘ (جنگلوں میں گھومتے پھرتے رہے ) تو، لنکا کے راجا راون نے اُن کی اہلیہ سِیتا جی کو اغواء کر کے لنکا میں ’’ سارک پھولوں کے باغ ‘‘ (Ashoka Vatika) میں نظر بند کردِیا تھا۔ پھر رام جی نے راجا راون کو شکست دے کر قتل کردِیا تھا اور اپنی پتنی کو لے کر ایودھیا آگئے تھے ۔ بھارت کے راجا اشوکِ اعظم (232سے 268قبل از مسیح ) اُس کی سلطنت میں موجودہ بھارت ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، بھوٹان ، مالدیپ، نیپال ، سری لنکا اور افغانستان بھی شامل تھے ۔ پھر کیا ہُوا؟ ۔ نہ جانے کِس بڑی یا چھوٹی طاقت کے حکم پر پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دوسرے 6 ملکوں کو چکر دے کر "Saarc" ۔(South Asia Association for Regional Cooperation )۔ کا ’’ڈھکوسلا‘‘ تشکیل پاگیا۔ اب کرلو جو کرنا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ’’ یہ کیسی تنظیم ہے کہ جس میں مسئلہ کشمیر کا تذکرہ کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے ۔ اب ہمارے وزیر خارجہ اور وزارتِ خارجہ کی طرف سے پاکستانیوں کو یہ کہہ کر دلاسہ دِیا جا رہا ہے کہ ’’ 57 مسلمان ملکوں کی تنظیم "O.I.C" (Organisation of Islamic Cooperation) سے بابری مسجد کے سلسلے میں تعاون کے لئے رابطہ قائم کِیا جا رہا ہے؟۔ محترمہ ’’ او ۔ آئی۔ سی‘‘ نے تو ، اپنے ایک اجلاس میں ( اُن دِنوں ) بھارتی وزیر خارجہ سشما سَوراج ؔ کو بھی "Guest of Honor" کے طور پر مدّعو کرلِیا تھا ؟۔اب ’’رام راج ‘‘ ہو ،سشما سَوراجؔ یا امریکی سامراج ؔ ؟۔ پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام کو خُوش حال کئے بغیر تو، ایٹمی طاقت پاکستان ، اپنے سب سے بڑے دشمن بھارت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا؟۔ اب تو یہی ہوسکتا ہے کہ ’’ ہمارے "Media Persons" ۔ اپنا مُنہ ایودھیا کی طرف کر کے رامؔ جی کو ، اُن کی گنگاؔ میلی بہت ہی میلی ہونے کی شکایت کرتے رہیں؟۔