سقوط ڈھاکہ کے تین مرکزی کرداروں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی‘ پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پھر صدر شیخ مجیب الرحمان کا جو انجام ہوا‘ وہ بہرحال برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا المیہ ہی ہے۔ بہر حال اس پائے کے سیاستداں برسوں نہیں صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس انجام تک پہنچنے کے ذمہ دار وہ خود بھی تھے۔بھارتی وزیر اعظم محض جواہر لال نہرو جیسے statesman سیاستدان کی بیٹی ہی نہیں تھی بلکہ آزادی کی جنگ میں بھی انہوں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔پھر کانگریس جیسی جماعت کو سنبھالنا بھی آسان نہ تھا۔مگر ایمر جنسی جیسی ہمالیہ سے بڑی غلطی نے جہاں انہیں متنازعہ بنایا وہیں گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی نے انہیں سکھ انتہا پسندوں کے ہاتھوں ایک المناک مو ت سے دوچار کیا۔قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو جو بے پناہ محبت عوام سے ملی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مگر اقتدار ملتے ہی مطلق العنانیت کے ساتھ جس طرح وہ خوشامدیوں میں گھرے حتیٰ کہ اپنا بروٹس یعنی آرمی چیف بھی خود ان ہی کا انتخاب تھا۔ جس کے ہاتھوں جب انہیں پھانسی ہوئی تو بہر حال ہمالیہ نہیں رویا۔ دانستہ ہو یا غیر دانستہ مگر سیاست میں غلطی اُسے کرنے والے قائد کو بھی بھگتنا پڑتا ہے اور قوم کو بھی۔ بنگلہ بندھو بننے والے شیخ مجیب الرحمان نے تحریک پاکستان کے لیے بے پناہ صعوبتیں جھیلیں اور پھر قیام پاکستان کے بعد پاکستانی حکمرانوں کے ہاتھوں وہ برسہا برس قید و آلام سے گزرے۔چلیں تسلیم کہ انہیں مغربی پاکستان کے سویلین اور فوجی حکمرانوں نے دیوار سے لگا یا کہ پھر انہیں ’’آزاد بنگال ‘‘ کا نعرہ تو لگا نا ہی تھا۔ مگر تیس سال کی جد وجہد کے بعد خود شیخ مجیب الرحمان نے اقتدار کی مسند پر بیٹھتے ہی جو انداز حکمرانی اختیار کیا وہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے تو ایک سبق ہے ہی مگر سیاستدانوں کی موجودہ پیڑھی اس سے عبرت حاصل کرسکتی ہے۔مگر بد قسمتی سے ایک تو تاریخ سے سیکھنا تو درکنار اسے ہم پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ہمارے بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان ساری زندگی جمہوریت اور فرد واحد کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جنگ لڑتے رہے ۔مگر جنوری 1972میں پاکستانی قید سے رہائی کے بعد اپنے سونار بنگال پہنچتے ہی جہاں انہوں نے دنوں،ہفتوں میں ایک مطلق العنان حکمران کا روپ دھار لیا وہیں عوامی لیگ جیسی عوامی سیاسی جماعت ،مکتی باہنی کے سرکش غنڈوں بدمعاشوں کی یرغمال بن گئی۔غریب غیر بنگالی خاص طور پر بہاری تو ان کے ظلم و ستم کا شکار بنتے ہی رہے مگر۔۔۔آزادی کی جد و جہد میں حصہ لینے والے غریب مظلوم بنگالی بھی ان سے محفوظ نہ رہ سکے۔شیخ مجیب مکمل سیاسی اقتدار رکھنے کے زعم میں اتنے مغلوب تھے کہ صرف سال بھر بعد ہی انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف بنگلہ دیش ،نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کو متحد کرکے پہلے مرحلے میں یونائٹڈ فرنٹ تشکیل دیا۔گو یا یہ بنیاد تھی کمیونسٹ ممالک کی طرح یک جماعتی حکمرانی کی ۔اور پھر ساری عمر پارلیمانی نظام کے لئے جد وجہد کرنے والے شیخ صاحب نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین میں تبدیلی لا کر پارلیمانی نظام کی جگہ جنوری 1975میں صدارتی طرز حکومت کی بنیاد رکھی اور وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان خود صدر ِ مملکت بن گئے۔1973میں جو یونائٹیڈفرنٹ تشکیل دیا گیا تھا ایک قدم بڑھ کر اسے بنگلہ دیش کر شک شرمک کا نام دے دیا۔ یعنی آئینی طور پر کسی دوسری پارٹی کا سرے سے پارلیمان کا وجو د ہی ختم کردیا۔مکتی باہنی کا قائد ٹائیگر جنرل قادر تھا۔جس سے رسمی طور پر ہتھیار تو ڈلوا دئیے گئے مگر بنگلہ دیش کی فوج انہی مکتی باہنی کے ملٹینٹ غنڈوں پر مشتمل تھی۔جنہوں نے ڈھاکہ کا لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا ۔پاکستانی فوج سے وابستہ جن باغی فوجیوں نے آزادی کی جنگ میں حصہ لیا۔صدر مجیب کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ملک میں امن و امان کی بحالی اور یک جہتی کے لئے ایک باقاعدہ بنگالی فوج تشکیل دی۔مگر ایک تو شیخ صاحب مکتی باہنی کے سرکش گروہوں کے سامنے بے بس تھے دوسرا جس آگ اور خون کا دریا پار کر کے وہ اقتدار میں آئے تھے اس نے ذہنی و نفسیاتی طور پر انہیں ایک ایسا متکبر ،خودسر حکمران بنادیا تھا جو خود کو ایک عظیم دیوتا کے روپ میں دیکھنے لگا تھا۔مزید کچھ لکھوں گا تو تعصب کے زمرے میں آئے گا ۔اس لئے ایک بار پھر بین الاقوامی شہرت یافتہ صحافی اوریانا فلاچی کے انٹرویو کا ذکر کروں گا‘ جو ان کے اقتدار میں آنے کے صرف مہینے بھر بعد لیاتھا۔اوریانا فلاچی 16دسمبر 1971میں ڈھاکہ میں ہی تھیں۔ مہینے بھر بعد جب ان کے اخبار کے ایڈیٹر نے انہیں بنگلہ بندھو کا انٹر ویو لینے کے لئے ڈھاکہ جانے کو کہا تواوریانا کے الفاظ میں وہ اُس شہر ڈھاکہ میں نہیں جانا نہیں چا ہتی تھیں جہاں انہوں نے سڑکوں پر مکتی باہنی کے ہاتھوں غیر بنگالیوں کو خون میں نہلاتے ،جشن مناتے دیکھا تھا۔مگر ایک پروفیشنل صحافی کی حیثیت سے وہ اس بات کی پابند تھیں ۔اوریانا فلاچی نے شیخ مجیب الرحمان سے اپنی ملاقات کا احوال جس طرح لکھا ہے اسے بہ زبان اردو تحریر کیا نہیں جاسکتا۔کہ مجھے اوریانا کی انگریزی میں لکھی اس تحریر کو اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے اردو زبان غریب لگی۔شیخ مجیب الرحمان اپنے اس انٹرویو میں تواتر سے یہ زور دیتے رہے کہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں 30لاکھوں بنگالیوں کا قتل عام ہوا۔مگر جب اوریانا اس کے مستند شواہد کے حوالے سے سوال پوچھتیں تو شیخ سوال پر بھڑک اٹھتے ۔اسی طرح وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہ تھے کہ 16دسمبر1971سقوط ڈھاکہ کے وقت ڈھاکہ اور اس کے اطراف کے شہروں میں غیر بنگالی معروف معنوں میں بہاریوں پر ایسے مظالم مکتی باہنی کے ہاتھوں توڑے گئے کہ ’’ہٹلر‘‘ کے دور کی یاد تازہ ہوگئی۔یہاں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ مشرقی کمانڈ کے انچارج جنرل امیر عبداللہ نیازی کے ہاتھوں بھی معصوم بے گناہ بنگالیوں کی بے پناہ تعداد کو گولیوں سے بھونا گیا۔وہ بھی کوئی کم نوعیت کا ظلم نہ تھا۔سقوط ڈھاکہ ہماری تاریخ کا ایک ایسا تاریک باب ہے کہ جس پر لکھتے ہوئے قلم کی سیاہی بھی خون میں ڈبونی ہوگی۔اور ہاں،معذرت کے ساتھ بنگلہ بندھو سے اپنی پہلی ملاقات میں اوریانا فلاچی نے جو نقشہ کھینچا ہے وہ بھی درس ِ عبرت ہے کہ اتنا عظیم رہنما ،شخصی کردار کے اعتبار سے اتنا گر سکتا ہے۔اوریانا لکھتی ہیں کہ ان کا ایک واقف جب اوریانا کو لے کر بنگلہ بندھو کے سامنے گیا تو اس کی آنکھوں نے کیسا عبرت انگیز منظر دیکھا: "Mr. Sarkar fell at his feet and kissed them fanatically. Then slowly climbed up his legs, the hips, the stomach, and the shoulders without the slightest protest from Mujib or a thought of my presence."