ترکیہ (ترکی)میں پچھلے چند دن خاصے گرما گرم رہے، سیاسی ٹینشن اورمحاذ آرائی کی کیفیت وہاں ابھی دو ہفتے مزید چلے گی۔ چودہ مئی کو پاکستان میں الیکشن تو نہ ہوئے البتہ ترکی میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہوگئے ۔ چند برس پہلے ترک صدر کے اختیارات میںریفرنڈم کے ذریعے خاصا اضافہ ہوااور اس وقت ترکیہ میں سب سے طاقتور عہد ہ صدر مملکت کا ہے، اگرچہ پارلیمنٹ کا بھی اپنا ایک خاص کردار موجود ہے۔ صدارتی انتخاب میں پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لینا لازمی ہے، ایسا نہ ہونے کی صورت میں رن آف الیکشن ہوتا ہے جس میں ٹاپ پر آنے والے دونوں امیدواروں میں مقابلہ ہوتا، اس میں جیتنے والا صدر بن جاتا ہے۔ اس بار بھی معاملہ رن آف الیکشن میں چلا گیاہے،جو اٹھائیس مئی کو ہوگا۔ ترکیہ کے موجودہ صدر طیب اردوان وہاں پچھلے بیس اکیس سال سے کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں ہیں، ان کی جماعت آق(AK) پارٹی مسلسل الیکشن جیت رہی ہے، اردوان پہلے وزیراعظم رہے ، پھر صدر بن گئے اور توقع ہے کہ رن آف الیکشن میں پھر جیت جائیں گے۔ ترکیہ کے انتخابات کو عالمی میڈیا غیر معمولی قرار دے رہا تھا، وہاںخاصی گرماگرمی رہی اور طیب اردوان کو ہرانے کے لئے اپوزیشن کی چھ نمایاں جماعتیں متحد ہو گئیں۔ یوں سمجھیں کہ ترکیہ میں’’ طیب اردوان بمقابل آل‘‘ والی پوزیشن بن چکی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکیہ میں ہونے والے نوے پچانوے فیصد پول سروے غلط ثابت ہوئے۔ ان تمام میں یہ امید ظاہر کی گئی تھی کہ طیب اردوان یا ہار جائیں گے یا پھر مقابلہ نہایت کلوز اور تقریباً برابری میں رہے گا۔ متحدہ اپوزیشن کے امیدوارچوہتر سالہ کمال قلچ دار اوعلوایک سابق بیورو کریٹ ہیں،ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ طیب اردوان کی جارحانہ خطابت کے مقابلے میں وہ نرم لہجے میں بات کرتے ہیں، مگر ان سے تمام اردوان مخالف امیدیں وابستہ کر چکے تھے ۔ اگرچہ یہ امید ایک بلبلہ ثابت ہوئی۔ چودہ مئی کے الیکشن میں طیب اردوان اگرچہ مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کر سکے مگر انہوں نے تقریباً پچاس فیصد ووٹ حاصل کر لئے، بمشکل آدھے فیصد ووٹ سے وہ صدر نہ بن سکے۔ اتنے زیادہ ووٹ لینے کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ کمال قلیچ دار اوعلو کے ووٹ اردوان سے پانچ چھ فیصد کم ہیں۔ حیران کن طور پر پانچ فیصد کے قریب ووٹ الٹرا سیکولر اور الٹرا نیشنلسٹ امیدوار سنان اوعان نے لئے۔ یہ صاحب ترکی میں مہاجرین کی آباد کاری کے سخت مخالف ہیں اور ان کی انتخابی مہم کا بنیادی نکتہ ہی یہی تھا کہ ترکیہ سے شامی مہاجرین کو واپس بھیجا جائے جبکہ دیگر تارکین وطن کے خلاف بھی سخت پالیسی بنائی جائے۔ رن آف الیکشن میں سنان اوعان شامل نہیں، ان کو ملنے والے پانچ فیصد ووٹ البتہ بہت اہم ہوگئے ہیں، یہ اگر مکمل طور پر کمال قلچ دار کو مل گئے تو وہ جیت سکتے ہیں، جبکہ اردوان کو صرف ایک فیصد تک ووٹوں کی ضرورت ہے۔ ترک تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سنان اوعان جس الٹرا نیشنلسٹ پارٹی سے پہلے تعلق رکھتا تھا، وہ طیب اردوان کی اتحادی رہ چکی ہے، اس لئے ان کے ووٹروں کے لئے نسبتاً لیفٹ ونگ کے کمال قلچ دار کے بجائے طیب اردوان زیادہ شناسا ہے۔ پاکستان میں ترکیہ کے انتخابات اور طیب اردوان کی جیت، شکست کو عام طور سے سیکولر، اسلامسٹ تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے مذہبی حلقے طیب اردوان کے حامی ہیں اور وہ ان کی جیت کو سیکولرازم کی شکست اور اسلامسٹوں کی فتح سمجھتے ہیں۔ اس کالم لکھنے سے پہلے بعض ترک لکھاریوں اور صحافیوں سے بات ہوئی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ترک صرف اس اینگل سے چیزوں کو نہیں دیکھتے ۔ اگرچہ طیب اردوان کی سپورٹ میں مذہبی حلقے کا اہم کردار ہے، مگر ان کی حمایت کسی حد تک معتدل سیکولروں میں بھی ہے اور ترک نیشنلسٹ ووٹر پچھلے چند برسوں سے اردوان کی سپورٹ کا اہم حصہ رہے ہیں۔ چھ جماعتی سیکولراپوزیشن اتحاد میں ایک مذہبی فکر والی جماعت بھی شامل ہے، جس کا سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان کے حلقہ اثر سے تعلق ہے۔ یاد رہے کہ اربکان صاحب کے انتقال کے بعد ان کی پارٹی کے کئی ٹکڑے ہوچکے ہیں۔اسے یوں سمجھ لیں کہ موجودہ ترک سیکولرازم ہمارے ہاں کے مذہب دشمن سیکولرسٹوں یا مصری مذہب مخالف سیکولرازم کی طرح نہیں۔ اس بار الیکشن میں تین چار نکات طیب اردوان کے خلاف جا رہے تھے۔ پچھلے چند برسوں سے ترک معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے، ترک کرنسی لیرا بھی ڈالر کے مقابلے میں بری طرح ڈانوں ڈول ہے اور یہ ریکارڈ سطح تک گر چکا ہے۔ مہنگائی کی شرح خوفناک حد تک بڑھ گئی۔ چند ماہ پہلے خود سرکاری دعووں کے مطابق افراط زر کی شرح ستر سے اسی فیصد تک تھی، جبکہ غیرسرکاری دعووں کے مطابق یہ ڈیڈھ سو سے دو سو فیصد تک ہوچکی ہے۔ یعنی بیشتر اشیا دو گنا تک مہنگی ہوگئیں۔ ترکیہ میں مہاجرین ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔ اردوان حکومت نے لاکھوں شامی مہاجرین کو ترکیہ میں آباد کیا، ان کی ویلفیئر کے لئے بہت سے انتظامات کئے ، طبی سہولتیں، وظائف وغیرہ۔ اب چند برسوں میں بالکل ویسے ہی مسائل وہاں پید ا ہوگئے جیسے پاکستان میں افغان مہاجرین نے پیدا کئے تھے۔ شامی مہاجرین ترک کلچر میں اس طرح فٹ نہیں ہو رہے اور انہوں نے استنبول ، انقرہ ، ازمیر جیسے بڑے شہروں کا رخ کیا تو یہاں کی مقامی آبادی کے لئے کئی مسائل پیدا ہوگئے۔ ایک اور مسئلہ معیشت کے مسائل حل کرنے کے لئے اردوان حکومت کی جانب سے غیر ملکیوں کو انویسٹمنٹ کے عوض دی جانے والی شہریت اور پراپرٹی لینے کی سہولت تھی۔ اس سے سرمایہ تو ترکی میں آیا، کچھ معیشت اور کرنسی کو بھی فائدہ ہوا ہوگا، مگر بہت سے عرب، عراقی اور برصغیر پاک وہند کے لوگ بھی وہاں سیٹل ہوگئے۔ اس سے ایک تو استنبول وغیرہ میں جائیداد کی قیمتیں اور کرایے وغیرہ بہت زیادہ بڑھ گئے۔ مقامی ترک آبادی اس سے اب پریشان ہوچکی ہے، انہیں لگتا ہے کہ یہ سودا مہنگا ہے۔ تارکین وطن کا اپنا مزاج اور کلچر ہے اور مقامی ماحول میں وہ اس طرح رچ بس نہیں سکے۔ اسی لئے ترکی میں مہاجرین کی واپسی اور تارکین وطن سے شہریت واپس لینے کا نعرہ مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ طیب اردوان کا بیس سال اقتدار میں رہنا بذات خود ایک منفی پہلو ہے۔ نوجوان نسل تبدیلی کی خواہاں رہتی ہے اور ترکیہ میں چینج یا تبدیلی سے مراد اردوان حکومت کو ہٹانا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت پربدعنوانی اور آزادی اظہار پر پابندیوں کا الزام بھی لگاتی ہیں۔ سب منفی پہلو چند ماہ پہلے آنے والا خوفناک زلزلہ تھا جس سے ترکیہ کے کئی شہر بری طرح متاثر ہوئے اور ہزاروں لوگ ہلاک، لاکھوں بے گھر ہوئے۔ تباہی اتنی شدید تھی کہ امدادی سرگرمیاں بروقت نہ ہوسکیںاور جانی نقصان بڑھ گیا۔ ترک اپوزیشن جماعتوں کا متحد ہوجانا بھی ایک اہم فیکٹر تھا۔ الیکشن نتائج نے مگر ثابت کر دیا کہ یہ سب ناکافی تھا۔ طیب اردوان ان منفی پہلوئوں کے باوجود اپنے تمام مخالفین پر بھاری رہے۔ انہوں نے توقعات سے زیادہ ووٹ لے لئے اور اندازہ ہے کہ وہ اٹھائیس مئی کو ایک بار پھر ترکیہ کے صدر بن جائیں گے۔ طیب اردوان نے مختلف فیکٹرز کو نہایت عمدگی سے استعمال کیا اور اپنی سپورٹ میں اضافہ کیا۔ انہوں نے ان انتخابات کو صرف معیشت پر مرکوز نہیں رہنے دیا،ورنہ انہیں شائد زیادہ نقصان ہوتا۔ طیب اردوان نے اپنی مذہبی سپورٹ کو بھرپور انداز سے استعمال کیا۔ ترک اپوزیشن ان پر اپنی سیاست میں’’ اسلامی ٹچ‘‘ڈالنے کا الزام لگاتی ہے۔ طیب اردوان کی مضبوط خارجہ پالیسی کے بھی اپنے مداح اور مخالف ہیں۔ اردوان نے بہرحال ترکیہ کو امت مسلمہ کے ایک اہم لیڈر ملک کے طور پر نمایاں کیا ہے۔ ارطغرل سے لے کر خیرالدین باربروسا، سلجوقی اور دیگر تاریخی ڈراموں کے ذریعے انہوں نے ترک قوم پرستی اور اپنے تابناک ماضی کو نمایاں کیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق طیب اردوان کی جارحانہ پالیسی کے خوف سے استنبول کا میئر یا انقرہ کا مئیر اپوزیشن کا صدارتی امیدوار نہ بن سکا، حالانکہ وہ موجودہ امیدوار کمال قلچ دار اوعلو سے کہیں زیادہ مقبول ہیں۔ انقرہ کے مئیر کے حوالے سے تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ چونکہ طیب اردوان کی طرح دائیں بازو سے سمجھے جاتے ہیں ، وہ اگر چھ جماعتی اپوزیشن کے امیدوار بننے پر رضامند ہوجاتے تو انہیں اردان کے چند فی صد اسلامسٹ ووٹ بھی مل جاتے اور یوں وہ پچاس فیصد سے کہیں زیادہ ووٹ لے جاتے۔ اسے طیب اردوان کی حکمت عملی سمجھیں کہ اپوزیشن کو زیادہ مضبوط امیدوار میسر نہ آسکا۔ طیب اردوان نے خراب معیشت کے باوجودعوام کو بعض اہم رعایتیں اور سہولتیں دیں۔ سات لاکھ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں پینتالیس فیصد کے قریب اضافہ کیا۔ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں بڑے ترقیاتی پراجیکٹس کا اعلان کر کے وہاں اپنی سپورٹ بیس برقرار رکھی۔ایک اہم کامیابی یہ حاصل کی کہ کرد شدت پسند جماعت کو اپوزیشن سے منسلک کر دیا۔ دراصل ایک کرد جماعت نے اپوزیشن کے اتحاد میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ترکیہ میں کرد علیحدگی پسند جذبات کی وجہ سے عام ترک آبادی کردوں کے لئے حساس ہے اور خاصے تحفظات رکھتی ہے۔ طیب اردوان نے ووٹروں کویہ باور کرایا کہ اپوزیشن کی جیت کا مطلب کرد انتہا پسندوں کی حمایت یافتہ حکومت کا جیتنا ہوگا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس نکتے نے کام کر دکھایا۔