اٹھارویں ترمیم کے بعد عدلیہ ملک کو متحد رکھنے میں کلیدی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ اس کی طاقت آئین کی تشریح اور اطلاق ہے۔ لیکن برطانوی عہد کے سماجی اور معاشی نظام کا داعی موجودہ تیرہ جماعتی حکمران اتحاد اب اس کے پیچھے پڑگیا ہے۔ اسے نیچا دکھانے کیلیے توہین پارلیمنٹ کا بل قومی اسمبلی سے منظور ہو چکا ہے تاکہ پارلیمان کی بالا دستی کی آڑ میں عدلیہ کا بازو مروڑا جاسکے۔ اشرافیہ کو واقعتاً اپنی ناک سے پرے کچھ نہیں دکھائی دے رہا اور اس میں اس کا کوئی قصور بھی نہیں کہ سیاست اور معیشت آپس میں بغل گیر ہیں۔ زرعی و صنعتی وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز ہیں اور حق حکمرانی بھی انہیں کے پاس۔ ملک کی دو تہائی آبادی بھوک اور بیماری کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے کیونکہ وہ عوامل جو غذائی تحفظ اور صحت کے لیے درکار ہیں پچھلے پچھتر سال میں استعماری دور کے نظریہ ترقی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ شہروں میں زیر زمین پانی خطرناک حد تک نیچے جاچکا ہے اور نہری نظام کے بدولت آباد ہونے والے کھارے پانی کے علاقوں میں تازہ پانی کی سپلائی مسئلہ بن چکی ہے۔ دریا بانجھ ہوئے ، چراگا ہوں میں زراعت کاری ہوئی اور جھیلیں سوکھ گئیں تو وہاں سے تازہ مچھلی ، دودھ و دہی اور گوشت کی دستیابی پر زد پڑی ہے۔ آبادی بڑھ چکی لیکن مہنگی توانائی کی وجہ سے صنعتیں اور کاروبار بند ہیں۔ معیاری خوراک اور صاف پانی لوگوں کی پہنچ سے دور ہیں تو کینسر اور کالا یرقان لوگوں کی زندگی کو اجیرن کر رہے ہیں۔ بھوک اور بیماری ایسا ہتھیار ہے جس کی نوک پر لوگوں کو پولنگ بوتھ کی طرف ہانکا اور ان سے ووٹ لیے جاتے ہیں۔ غیر منتاسب نظام نمائندگی اور مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی وبے اختیاری طاقت و وسائل کا رخ مراعات یافتہ طبقے کی طرف رکھتی ہے۔ جمہوریت کے داعی مغربی ملکوں کو تسلی کہ چلو ملک میں جمہوریت ہے تو سہی لیکن اس کے نقصانات کا اندازہ انہیں نہیں ہے۔ پاکستان میں جاری سیاسی رسہ کشی کے تناظر میں ان ممالک میں پائی جانے والی یہ تشویش کہ کہیں جمہوریت کا بوریا بستر ہی نہ گول ہوجائے، جائز مگر حالات کو واپسی کے نقطہ سے دور لے جانے میں اشرافیہ کا کردار زیر بحث ہی نہیں۔ سیاسی رسہ کشی کے پیچھے کار فرما عوامل کی مثال یہ ہے کہ بیرونی قرضوں پر صرف سود کی ادائیگی ملکی محصولات کے برابر ہے۔ دفاع اور جاری اخراجات کے لیے مرکز کے پاس دھیلا بھی نہیں بچے گا۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کے لیے عوام کو ٹکٹکی پر چڑھا دیا لیکن اس حوالے سے مذاکرات کا سلسلہ پچھلے نو ماہ سے معطل ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے زر ی ضمانتیں درکار ہیں جو مل نہیں پارہیں۔ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضے کی نوعیت اگرچہ مالی خسارے اور ادائیگیوں کے توازن کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لیکن اس عالمی ادارے کی طرف سے جاری ہونا والا سرٹیفیکیٹ بہت سے بند دروازے کھول دے گا۔حل تو یہی ہے کہ محصولات کا دائرہ کار بڑھایا جائے۔ ساٹھ فیصد غیر رجسٹرڈ کاروبارکو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے علاوہ شخصی آمدنیوں سے محصولات بڑھائی جائیں تاکہ لوگوں کا معیار زندگی بڑھانے کیلیے تعلیم و صحت اور روزگار کی مد میں خرچ بڑھایا جاسکے۔ اس حوالے سے تو کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تاہم غریب اور متوسط طبقے کو، جسے خوراک اور بیماری کے چنگل سے نکلنے کے ریاستی امداد کی ضرورت ہے، اس پر ہی محصولات کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ محصولات کے لیے اشیائے ضرورت ( پٹرولیم مصنوعات، کوکنگ آئل اور دالیں) پر انحصار اور انکی مارکیٹ میں دستیابی پر مافیا کی اجارہ داری مہنگائی کے طوفان کی بڑی وجہ ہے اور موجودہ انتشار کا سبب بھی۔ اشرافیہ کو غریب اور متوسط طبقہ پر بوجھ ڈالنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں سوجھتا۔ وہ تین سو تنتیس خاندان جو زرعی اور صنعتی وسائل پر براجمان ہیں اور سیاست پر قابض اپنے اوپر ٹیکس لگانے سے تو رہے۔ اگر مافیا ، جو اسے اقتدار میں لاتا ہے ،پر سختی کرے تو اس کی سیاسی ساکھ کو دھچکا لگے گا۔ بیرونی امدا د بھی بند ہوچکی ہے کہ دنیا اب نظریاتی بکھیڑوں سے اکتا چکی ہے۔ یوں انتشار اور افراتفری ایک ڈھال بن گئی ہے جس کے پیچھے اشرافیہ چھپی ہوئی ہے۔ جمہوریت خطرے میں رہتی ہے تو ہی اسے کھل کر کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اشرافیہ عوام کیخلاف حالت جنگ میں آچکی ہے۔ اب اگرعوام کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو بغاوت گردانا جائے تو اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں۔ اب تک تو یہ روایت تھی کہ طاقت و اختیار کی بندر بانٹ کے لیے اشرافیہ کے اندر سے ہی نئی پارٹیاں ابھر کر سامنے آتی تھیں لیکن اب آبادی میں اضافے اور نوجوان نسل میں پائی جانیوالی بے چینی کو محفوظ راستہ دینے کے لیے نئی پارٹی میدان میں ہے تو اشرافیہ تیرہ جماعتوں کے اتحاد، پاکستان جمہوری تحریک، کی صورت میں متحد ہوگئی ہے۔ تحریک انصاف کی فاش غلطی کہ حکومت کھونے کے بعد پارلیمان سے ہی بھاگ گئی۔ اگر یہ کم تھا تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں ہی توڑ ڈالیں۔ تاہم اگر اشرافیہ اس مہلت کو غنیمت جانتی تو سمجھوتے کی راہ نکل سکتی تھی لیکن اسکی ترکیب ہی کچھ ایسی ہے کہ تخت اور تختہ کے علاوہ اسکو کوئی راستہ سوجھتا ہی نہیں۔ دولت ، ریاستی مشینری اور پارلیمان پر قبضے کے بل بوتے پر اسے یقین ہے کہ تبدیلی کی لہر کو سہار جائے گی۔ لیکن جو کچھ یہ کرنے جا رہی ہے وہ آئین اور فطرت کے خلاف ہے۔ بھوک اور بیماری کے چنگل میں پھنسے لوگ، لاقانونیت اور مسلسل خسارے کی شکار معیشت سے ملک کی سلامتی خطرے میں پڑچکی ہے۔ شہریت کے آفاقی تصور پر قائم نئے آئین اور اس سے تشکیل پانیوالے ملکی اور عالمی ضروریات سے اہم آہنگ نظام کی ضرورت ہے جو اسے پائیدار معیشت اور بلند معیار زندگی کی طرف لے جائے۔ یہ سب اس ملک کی اشرافیہ نہیں کرسکتی۔ اگر تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ وہ موجودہ سیاسی و معاشی ڈھانچے کی موجودگی میں دو تہائی اکثریت لے کر کوئی بڑی تبدیلی لا سکتی ہے تو اسے اپنی حکمت عملی کا از سرنو جائزہ لینا ہوگا۔ہاں، اگر عدلیہ آئین و قانون کی عملداری اور بنیادی حقوق کے تحفظ پر سمجھوتہ نہ کرے تو بات بن سکتی ہے۔