ستر برس کے بعد اب ہم وہاں کھڑے ہیں‘ شاعر نے جس کی بات کی تھی: یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا مہلت ہی نہ دی فیض کبھی بخیہ گری نے براہ راست موضوع سے تعلق نہیں مگر رئیس المتغزلین حسرت موہانی کا ایک شعر یاد آیا۔ وہ سادہ اطوار‘ خالص اور کھرا آدمی‘ جو ایک آزاد آدمی کی زندگی جیا اور ایک مرد آزاد کی طرح اس معاشرے سے اٹھ گیا۔ وہ معاشرہ جس کے مکینوں کی نفسیات پیچ در پیچ الجھی ہے۔ حسرت نے کہا تھا: کچھ بھی حاصل نہ ہوا زہد سے نخوت کے سوا شغل بیکار ہیں‘سب تیری محبت کے سوا پھر مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک مرید مجذوب ؔ یاد آیا ۔بار بار سرکاری تنبیہہ کے باوجود کھدر پہنتے۔ عمر بھر مولانا اس شاعر کو استوار کرنے میں لگے رہے مگر وہ اتنے ہی ہموار ہوئے جتنا کہ ہونا تھا۔ بے تکان بولنے کے عادی تھے۔رفو گری کے لئے مولانا انہیں چپ کا روزہ رکھواتے۔ کبھی کبھی تو ایک کئی ہفتے کا۔ ایک بار یہ مدت 30دن کی تھی۔ اکتسویں دن خدمت میں حاضر ہوئے اورچہکتے رہے۔ فرمایا:مجذوبؔ تیس دن کی کسر تم نے ایک دن میں پوری کر لی۔ باایں ہمہ انہیں عزیز رکھتے اور گاہے ان کا کلام سنا کرتے۔ ایسا ہی ایک موقع تھا‘ جب انہوں نے سنایا: ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی اب تو آ جا‘اب تو خلوت ہو گئی مولانا ٹھٹھکے اور ارشاد کیا: تصّوف کو اس سے بہتر الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ’’ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی، اگر میں بادشاہ ہوتا تو ایک لاکھ روپے تمہیںانعام دیتا‘‘ شاید یہ مجذوبؔ کی زندگی میں سب سے سنہری ساعت تھی۔ یہ وہی تصوف ہے‘ جسے ہمارا ٹی وی واعظ متوازی دین کہتا ہے۔ برسبیل تذکرہ یہ کہ مختلف اہل علم نے تصوف کی جو تعریف بیان کی ان میں سے ایک یہ ہے ’’التصوف حریّہ‘ تصوف آزادی ہے‘‘۔حیّ و قیوم پروردگار ‘ اس کا سچا رسول ؐ ‘رئوف و رحیم اور رحمت اللعالمین ؐاور اس کی کتاب۔ تاابد جس کی حفاظت کا ذمہ خود مالک کون و مکاں نے لیا ہے۔ ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘ اس ہمیشہ یاد رکھنے والے ذکر کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہمی اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ اہل صفا کا وصف کیا ہے‘ جو دائم صراطِ مستقیم پر انہیں لئے جاتا ہے۔ خطا سرزد ہوتی ہے تو چونک اٹھتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے فوراً شاہراہ کو پلٹتے ہیں۔ ہمارے عہد کے ایک سالک صوفی عائش محمد سے کسی نے پوچھا کیا میں درود تاج پڑھا کروں؟ بولے ’’بھائی ‘ ہم تو پکی سڑک پر چلتے ہیں‘ درود ابراہیمی پڑھا کرتے ہیں‘‘۔ صوفی صاحب نے اتنا درود پڑھا‘ اتنا کہ ایک زمانے میں‘ اس کے کیف میں رہنے لگے۔ ایک آدھ راز دار کوکچھ اپنی کیفیت کبھی بتائی تھی۔ آپ کو اگر ناپسند نہ ہوتا تو یہ طالب علم اس کا ذکر کرتا۔ مختصراً یہ کہ اس عالم میں جو نور نمودار ہوا‘ خود ان پر کیا‘ ان کے ماحول پر بھی اثر انداز ہونے لگا۔ یہ تو ناچیز نے بھی دیکھا کہ جب ختم المرسلینؐ نے توکل کی ایک نشانی پیدا کر دی تھی‘کیسا ہی اندیشہ ہو‘کیسا ہی خوف و خطر، شاہ بلوط کے شجر کی طرح مستقیم رہتے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مدارس پہ مشکل وقت پڑا تو ان کے کراچی والے مدرسے میں سے انڈونیشیا کے دو طالب علم نامزد ہوئے‘انہی دنوں سیاحت کے مقبول جزیرے بالی میں دہشت گردی کا ایک المناک واقعہ رونما ہوا تھا۔سی آئی اے بائولی ہو رہی تھی، دنیا بھر میں انڈونیشیا کے مکینوں کی تلاش تھی‘دین و مذہب سے جن کا واسطہ ہو۔ کسی نے اندیشے کا اظہار کیا کہ حکومت کے ہاتھوں جانے کیا بیتے۔سب جانتے ہیں کہ درویش وہ ہے‘اپنے آپ پر ایک ذرا سا فخر بھی جس میں نہ ہو۔لیکن کبھی جلال بھی جاگتا ہے۔ یاد دہانی کراتا ہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے‘ درہم ودینار رسم ورہِ دنیا کا نہیں۔ بولے: کیا ہو گا؟داروگیر۔تو کیا ہم جادوگروں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ اشارہ ان ساحروں کی طرف تھا‘ جناب کلیم اللہ‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دربار میں جنہوں نے رب واحد پر ایمان کا اعلان کیا۔ پھر عذاب کی تمام تر دھمکیوں کے باوجود اس پر قائم رہے۔ یکسوئی !یکسوئی اہل اخلاص کا شیوہ اور شعار۔دائم ایک شاہراہ مستقیم کے مسافر۔تعلیم و تدریس اور تحقیق و تصنیف‘تجارت یا سیاست‘ذاتی یا اجتماعی زندگی‘ژولیدہ فکری آدمی کو برباد کرتی ہے۔ آئیے یہاں ایک لمحے کو رکیں اور سیدنا علی بن عثمان ہجویری ؒ کے استاد امام ختلیؒ کا وہ جملہ دل میں دہرائیں‘ ’’یہ دنیا ایک دن کی ہے اور ہم نے اس کا روزہ رکھ لیا‘‘انہی سے اور ان کے ہم نفس اساتذہ سے فیض پا کر علی بن عثمان داتا گنج بخشؒ ہو گئے۔ کشف المحجوب ایسی کتاب لکھی کہ کبھی نہ غروب ہونے والا آفتاب ہے۔ انسانی ذہن بھٹکتا ہے۔ اس کی تشکیل ہی ایسی ہے کہ شاہراہ سے ہٹ کر پگڈنڈیوں پہ چل نکلتا ہے۔ خود کو محدود سے محدود تر کرتا چلا جاتا ہے۔ کسی مکتب فکر ‘ کسی استاد‘ کسی گروہ کا اسیر ہو جاتا ہے۔ احساس عدم تحفظ‘ وہ اس کی جبلتیں ، اپنے آپ سے ہمدردی اور اس ہمدردی میں خود کو رعایت دینے اور دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی روش‘استثنیٰ کے سوااس طرز احساس کے طفیل ‘ ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ سانحہ یہ ہوتا ہے کہ خود کے لئے جواز تراشنے کی عادت پختہ ہو جاتی ہے‘ حتیٰ کہ طرز زندگی۔ ہمارے عہدکے عارف نے کہا تھا‘ ساری خرابی تجزیے کی ہوتی ہے‘غلط بنیاد سے شخصیت کی عمارت ٹیڑھی ہوتی ہے اور ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک دن ارشاد کیا:عقل جہاں رکتی ہے وہیں بت خانہ تعمیر ہوتا ہے۔اپنے قلب و دماغ میں ہمارے عہد کے حاکم نے بھی ایک بت خانہ تعمیر کر رکھاہے ۔ اپنے مخالفین کو اگر وہ زمین بوس کر سکا تو تاریخ کے دوام میں اس کا ستارہ جگمگاتا رہے گا۔اس کے دشمن سیاسی طور پر دفن بھی کر دیے جائیں یا پھر سے جی اٹھیں‘اس سے کیا ہو گا۔شاہراہ حیات تب روشن ہو گی‘ جب یکسوئی‘اسے نصیب ہو گی۔ علمی اور اخلاقی بالیدگی سے جب وہ راز اس پر کھلیں گے ‘ اقوام جن سے سرخرو ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ معاشرے میں سکون وقرار اور فروغ و فراغ کا انحصار نظام عدل پہ ہوتا ہے۔ ایک ایسا نظام عدل‘ جس میں کوئی …کوئی کمی‘ کوئی کجی اور کوئی تشنگی نہ ہو، اگر ہو تو دورکی جائے۔ ستر برس کے بعد اب ہم وہاں کھڑے ہیں‘ شاعر نے جس کی بات کی تھی: یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا مہلت ہی نہ دی فیض کبھی بخیہ گری نے