عبداللہ طارق سہیل صاحب سے فارمیٹ مستعار لے کر آج چند الگ الگ موضوعات پہ مختصر رائے کا اظہار حاضر ہے ۔ صحافت کرتے کرتے اگر کوئی کسی سیاسی جماعت کا ترجمان بن جائے تو اسے صحافت چھوڑ دینی چاہیے اور سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لینی چاہیے۔ مشاہد حسین سید، شیر ی رحمن ، حسین حقانی ، مشتاق منہاس اور دیگر کئی لوگوں نے صحافت چھوڑی اور سیاست کی راہ لی ۔ایسا کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل ہے لیکن صحافت کا لبادہ اوڑھ کر سیاسی چالیں چلنے کے لیے آزادی اظہار کی اجازت طلب کرنا صحافت کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور ریاستی اداروں کو بھی۔ اظہار رائے کی آزادی کو دوسروں کی تضحیک کے لیے استعمال کرنے کے عمل کو کچھ بھی کہا جا سکتا ہے مگر صحافت نہیں۔ میں نہ وزیر اعظم ہوں ، نہ آرمی چیف، نہ چیف جسٹس آف پاکستان ۔میں ایک عام شخص ہوں۔ اگر کوئی میرا خاکہ بنا کر مجھے میرے ہمسائے کے قدموں میں بھی بٹھا دے گا تو میری تضحیک ہو گی ، مجھے برا لگے گا اور میری دل آزاری ہو گی۔ ٭٭٭٭ وزیر اعظم نے زیادتی کے ملزموں کو ہمیشہ کے لیے ناکارہ کرنے اور انہیں نا مرد بنانے کے تصور کی حمایت کی ہے ۔وزیر اعظم کا خیال اچھا ہے مگر ایسے لوگوں کی کڑی نگرانی کا میکنزم بھی ساتھ ہی بنانا ہو گا۔ خدشہ موجود رہے گا کہ سزا پوری کر کے جیل سے چھوٹنے کے بعد ایسے لوگ جو پہلے ہی ایک طرح کے نفسیاتی مریض ہوتے ہیں ، مزید نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو کر قتل و غارت گری یا مزید وحشیانہ جرائم میں ملوث نہ ہو جائیں۔ تمام پہلووں پہ غور کرنے کے بعد سخت سے سخت سزا ہی ایسے درندوں کا انجام ہونا چاہیے۔ ٭٭٭٭ روزنامہ نائنٹی ٹو کی ایک خبر کے مطابق زیادتی کا ملزم عابد قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہونے پر چھ مرتبہ پکڑا گیا اور ہر بار پولیس کو رشوت دے کر چھوٹ گیا۔ کیا مناسب نہ ہوگا کہ ملزم عابد کی فائل کھولی جائے ، دیکھا جائے وہ کب کب کس کس جگہ پر پکڑا گیا، کس کس پولیس اہلکار یا افسر نے اس کی تفتیش کی ، دیکھا جائے کہ تب اس تھانے میں ایس ایچ او اور تفتیشی کون تھا۔ سوال کیا جائے کہ اس شخص کو کس نے چھوڑا، تلاش کیا جائے کہ ملزم عابد کے بار بار چھوٹنے کا ذمہ دار کون ہے۔ کیا یہ مناسب وقت نہیں کہ ان تمام پولیس اہلکاروں کا کھوج لگا کر ان کا بھی احتساب کیا جائے ؟دکھ اورالمیے کی بات یہ ہے کہ ملزم عابد تو پکڑا جائے گا اس بار شاید اسے سزا ہو بھی جائے ۔ لیکن پولیس روزانہ کتنے ہی مجرموں کو پیسے لے مزید عورتوں کا ریپ کرنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے ۔ کیا اس مسئلے کا مستقل حل ہے پولیس ریفارمز کا وعدہ کرنے والی اس حکومت کے پاس ؟ ٭٭٭٭ کرکٹ کے چاہنے والوں کو عمران خان جیسے وزیر اعظم سے بڑی امیدیں تھیں۔ انہوں نے درست کہا کہ نتائج آنے میں وقت لگتا ہے لیکن ریفارمز کا ایجنڈا ہی نامکمل ہو تو مطلوبہ نتائج کے نہ آنے کا امکان بھی موجود رہتاہے۔ عمران خان کے وزیرا عظم بننے کے بعد بھی ایک ایسا کرکٹ بورڈ وجو د میں نہیں آ سکا جو اقرباپروری اور سیاست سے پاک ہو کر ٹیلنٹ کو پروموٹ کر سکے۔کھیل کے میدان موجود نہیں ہیں، کرکٹ کلبز سہولیات سے محروم ہیں، کرکٹ کھیلنے والوں کے پاس روزگار نہیں ہے ۔گراس روٹ لیول سے ٹیلنٹ کو اوپر لانے کا کوئی منصوبہ اب تک عمل میں نہیں لایا گیا ہے ۔ جس کے نتیجے میں کرکٹ کے کھیل میں حیران کن نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ کرکٹ تو چلیں کرکٹ ہے ، وزیر اعظم عمران خان سے توقع تھی کہ وہ باقی کھیلوں کے فروغ کے لیے بھی حکمت عملی وضع کر کے سپورٹس بورڈ کو توانا کریں گے جس سے کئی دوسرے کھیلوں میں جان پیدا ہو گی اور پاکستان اپنی کھوئی ہوئی روایات واپس حاصل کرنے کے طرف قدم اٹھائے گا۔ لیکن سپورٹس بورڈ کا حال ویسا ہی ہے ، فنڈز کی کمی ہے ، پلاننگ کرنے والے موجود نہیںاور ہاکی سمیت باقی کھیل زوال کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم نے گذشتہ روز تسلی تو دی ہے کہ کرکٹ میں وقت کے ساتھ ساتھ بہتری آئے گی، کیا وزیر اعظم یہی تسلی باقی کھیلوں کے بارے میں بھی دے رہے ہیں؟ ٭٭٭٭ اپوزیشن کو اپنی پڑی ہے، تا حیات قائد کی گرفتاری کا حکم آ چکا ہے ، وہ عدالت جہاں سے انہیں حاضری سے استثناء کی امید تھی وہاں سے خیر کی خبر ان کے لیے نہیں آئی۔ نواز شریف کو اپنے کیسیزمیں اپیل کا حق استعمال کرنا ہے تو انہیں واپس آنا ہی ہو گا ،بظاہر لگتاہے کہ انہوں نے واپس نہ آنے اور اپنے کیسز کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ شاید ان کے ذہن میں ہو گا جب حالات ’’سازگار ‘‘ ہوں گے تو کون سے کیسز اور کہاں کی سزا، جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ٭٭٭٭ آخر میں نوجوان شاعر عمیر نجمی کے چند اشعار بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے بچا ہے تجھ میں جو میرا حصہ نکالنا ہے یہ روح برسوں سے دفن ہے ، تم مدد کرو گے ؟ بدن کے ملبے سے اس کو زندہ نکالنا ہے نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے میں ایک کردار سے بڑا تنگ ہوں قلم کار مجھے کہانی میں ڈال غصہ نکالنا ہے نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہک مجھے سخن بیچنا ہے، خرچہ نکالنا ہے ٭٭٭٭