پیدا ہوا ہے کوئی تو ہنگام شہر میں یعنی کہ اپنا جب سے ہوا نام شہر میں اے سعد اس کو جھوپ پہ تھا اس قدر عبور طرز سخن اسی کا ہوا عام شہر میں اس کے بعد تو غالب کا مصرع لکھنا پڑے گا۔روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔ آپ بس شعروں کا لطف لیجیے۔کیسا یہ امتزاج مری زندگی میں ہے۔آئی ہے صبح گائوں میں تو شام شہر میں۔یوسف تو ہم نہیں تھے کہ کوئی خریدتا۔پر ہم تو دستیاب تھے بے دام شہر میں۔چلیے اس تمہید کے بعد شہباز شریف کی پیوٹن ملاقات کی بات کرتے ہیں کہ جس کا حاصل یہ خبر ہے کہ پاکستان کو پائپ لائن سے گیس فراہمی ممکن ہے۔ پھر بقول غالب ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے۔غیر سے تجھ کو محبت ہی سہی ہمیں تو سمر قند و بخارا سے کچھ اور یاد آ گیا وہی جو حافظ شیرازی نے کہا تھا اور کہہ کر سمر قند و بخارا کو ادب میں امر کر دیا: اگر آں ترک شیرازی بہ دست آرد دل ما را بہ خال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را یعنی اگر میرا محبوب میرا محبوب میرا دل اپنے ہاتھ میں لے لے تو میں اس کے رخسار کے تل پر سمر و قند و بخارا قربان کر دوں۔کہتے ہیں کہ جب تیمور نے سمر قند و بخارا فتح کیا تو اس نے حافظ کو بلوایا اور پوچھا کہ میں تو ان شہروں کو فتح کرتے کرتے مر گیا اور تم نے آرام سے کیسے کہہ دیا کہ تم ان کو محبوب کے ایک تل پر وار دو گے۔حافظ نے بڑے رسان سے کہا کہ اگر ایسی بخشش نہ کرتا تو اس حال کو نہ پہنچتا۔اس پر تیمور مسکرایا اور حافظ کو چھوڑ دیا۔ویسے بھی سمر قند و بخارا کی حیثیت اساطیری ہے۔بہرحال روسی صدر نے شہباز شریف کو یقین دلایا کہ وہ جنوبی ایشیا میں پاکستان کو اہم شرکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔گیس پائپ لائن کا انفراسٹرکچر تو پہلے ہی موجود ہے۔ روس کے بعد شہباز شریف 17ستمبر کو لندن اور 19کو امریکہ جا رہے ہیں ان کی خواہش ہے کہ بطور وزیر اعظم جتنے دورے ممکن ہوں کر لیں یہ چانس پھر تو آئے نہ آئے۔روس کے بعد امریکہ جانا دلچسپ لگتا ہے کہ کچھ بریفنگ بھی تو دینا پڑے گی اس سے پہلے لندن میں یقیناً ان کی ملاقات نواز شریف سے ہی ہو گی اور آئندہ کا لائحہ عمل طے ہو گا۔ آعندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل بہرحال خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔اب دیوانے کی جگہ فرزانے لگا لیں ۔ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ نواز شریف کو بہادر ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطن واپس آ جانا چاہیے پہلی بات تو یہ کہ یہاں ووٹ بنک انہی کا ہے بے چارے شہباز شریف تو کبھی اس منصب پر جچے نہیں ۔ ان میں گو وہ پرانے والا وزارت اعلیٰ کا کروفر بھی نہیں رہا کہیں وہ ناک سے لکیریں نکالتے نظر آتے ہیں تو کہیں بھیک کا رونا روتے ہوئے کہ اب ان کا فون بھی کوئی نہیں سنتا کہ انہیں یقین ہے بھیک ہی مانگیں گے۔نواز شریف اگر سچ مچ لیڈر ہیں تو پھر جرات دکھائیں کیا آپ کو صرف منڈیلا او قائد ثانی کہلوانے کا شوق ہے۔ایک لمحے کے لئے اپنے عمل کا ان کے عمل کے ساتھ موازنہ تو کریں۔جب تک آپ اپنی دولت اور بچے اپنے وطن میں لا کر اس مٹی سے نہیں جڑتے تب تک آپ خلا میں ہیں۔آپ نے تو اپنے محل کا نام بھی جاتی امرا رکھا ہوا کہ بھارت آپ کے اندر نہیں نکلا۔معاف کیجیے آپ کو ان تلخ سوالوں کا جواب دینا ہو گا کبھی آپ کے بارے میں یہ مصرح کسی نے کہا تھا۔تجھے نواز رہا ہے خدا نواز شریف۔ بات کسی دوسری طرف نکل گئی مگر کیا کروں میں نے دل کی بھڑاس تو نکالنا تھی۔نواز شریف کا تو بیانیہ بھی چوری ہو گیا۔بلکہ شہباز نے اسے زمین برد کر دیا۔ایسے ہی اپنے پیارے مرحوم دوست جعفر بلوچ کا ایک شعریاد آ گیا جو انہوں نے تحسین فراقی کے حوالے سے کہا تھا کہ انہوں نے عبدالماجد دریا آبادی پر ڈاکٹریٹ کی تھی۔شہباز شریف سے مناسبت آپ جائیں گے: جب سے اے تحسین فراقی تیرے سپرد ہوا عبدالماجد دریا بادی دریا برد ہوا گویا کہ شہباز صاحب معیشت میں ستیا ناس کا سو ستیاناس کر چکے۔ ذرا سی بات خان صاحب کے بارے میں بھی ہو جائے کہ ان کا کہنا ہے کہ طاقتور لوگ سیاسی عدم استحکام روک سکتے تھے کمال معصومیت ہے کہ وہ تو معاشی استحکام لانا چاہتے تھے اور شاید ان کی حد تک یہ استحکام آ بھی چکا ہو طاقتوروں نے کبھی بھی سیاسی استحکام کی کوشش نہیں کی کہ ان کو وارا ہی نہیں کھاتا یہ روز روشن کی طرح عیاں اور اب تو یہ راز بھی چھپا نہیں رہا کہ خود خان صاحب کا اعتراف کر چکے ۔بظاہر یہی محسوس ہو رہا ہے کہ طاقت کا ارتکاز سول سطح پر بھی نہیں ہو سکا۔آپ سیاستدانوں کی تاریخ دیکھ لیں کہ ایک پرویز مشرف نے بی اے کی ڈگری لازمی کی تو اسمبلی جعلی ڈگری ہولڈر سے بھر گئی اور اسلم رئیسانی نے یہ کہہ کر مہر ثبت کر دی کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی۔پاکستانی عوام کی بدقسمتی کہ ملک کے نالائق ترین وڈیرے ان پر مسلط رہے اور پھر سرمایہ کار نے آ کر ان کو بیچنا شروع کر دیا عوام بھی ان کے عادی ہو گئے کہ نیک اور صالح لوگ تو ناجائز کام بھی نہیں کروا سکتے۔آخری بات خان صاحب کی بہت دلچسپ ہے کہ شہباز کے پاس بھی سوائے پیسے مانگنے کے کوئی منصوبہ نہیں۔اس فقرے میں ’’بھی‘‘ کا لفظ کمال ہے۔ جیسے غالب کے ایک شعر میں ’’تھی‘‘ کا لفظ مرکزی تھا: تھی وہ اک شخص کے تصور سے اب وہ رعنائیِ خیال کہاں