اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیلاب کے نقصانات کا ازالہ کرنا ہے۔اس کمزور معیشت کے ساتھ ملک کے ایک تہائی علاقے میں تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کے نقصانات سے نبٹنا آسان کام نہیں ہے۔بین الاقوامی امداد کے ضمن میں 160ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا لیکن عملی طور پر شاید ابھی تک 39ملین ڈالر ہی مل سکے ہیں۔جو کہ اس بڑے سیلاب کے نقصانات کے ازالے کے لئے نہایت ناکافی ہے۔دوست ممالک سے امدادی سامان کے چند جہاز بھیجے گئے ہیں، سب سے زیادہ جہاز یو اے ای کی طرف سے بھیجے گئے ہیں جو کہ تقریباً تیس ہیں۔اس کے علاوہ سعودی عرب اور امریکہ نے بھی پندرہ بیس جہاز سامان کے روانہ کئے ہیں، بادی النظر میں یا تو دوست ممالک کو پاکستان کے نقصانات کا صحیح اندازہ نہیں ہے یا وہ پاکستان کے ماضی کے اقتصادی رویے کی وجہ سے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کرنے سے گریزاں ہیں۔ پاکستان نے یو اے ای سے بیس سال پہلے جو قرضہ لیا تھا، وہ ابھی تک واپس نہیں کیا جا سکا۔ وزیر خزانہ نے خود بھی یہ کہا ہے کہ جن ممالک کے ہم نے پہلے ہی قرضے واپس کرنے ہیں، ان سے مزید قرض کا مطالبہ کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے، یہ بات بھی ترقی یافتہ ممالک کے علم میں ہے کہ پاکستان کے چند امیر خاندان بیرونی ممالک میں اربوں ڈالر کے اثاثے رکھتے ہیں اور وہ اس قومی عذاب سے چھٹکارا پانے کے لئے اپنی دولت پاکستان واپس لانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ان حالات میں دوسرے ممالک کے لئے بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے عوام کے حصے کی رقوم پاکستان کو امداد کے لئے دیں البتہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے دل کھول کر پاکستانی بھائیوں کی مدد کی ہے اور عمران خان کے دو ٹیلی تھون کے دوران اربوں روپیہ پاکستان بھیجا ہے۔ عمران خان اپنے سابقہ ریکارڈ کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد جیت چکے ہیں اور اب بھی وہ عمران خان کی معرفت بھاری رقوم پاکستان بھیج رہے ہیں۔البتہ اس حکومت کو بیرون ملک پاکستانی امداد دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔اس کی ایک وجہ حکمران خاندانوں کے بیرون ملک اثاثے اور دوسری وجہ اس حکومت کا بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی مخالفت کرنا ہیں ان خیالات کا اظہار بیرون ملک پاکستانیوں نے جناب احسن اقبال کے بیرون ملک دورے کے دوران ان کی موجودگی میں بھی کیا تھا جس کی ویڈیوز بھی موجود ہیں محترمہ ثانیہ نشتر نے بھی سٹیٹ بنک کو متوجہ کیا ہے کہ بیرون ملک سے عمران خان کے توسط سے بھیجی گئی رقوم میں رخنہ ڈالا جا رہا ہے۔اب حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ پاکستان کی سب سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، سیلاب زدگان کی امداد اور معیشت کی بحالی کے لئے کم از کم اس ایک نقطے پر متفق ہو جائیں اور حکومت اور اپوزیشن مل کر ملک کو اس مشکل سے نکالنے کی کوشش کریں خود وزیر اعظم شہباز شریف نے فرمایا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے ناک سے لکیریں نکلوائی ہیں اور پھر پاکستان کے لئے قرضہ منظور ہونے کے بعد دوست ممالک سے بھی امدادی رقوم اور قرضوں کا اجراء شروع ہو جائے گا لیکن زمینی حقائق اس کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔امید تھی کہ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کے بعد ڈالر کی پرواز بھی رک جائے گی لیکن اس پرواز میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔اس وقت اوپن مارکیٹ میں ڈالر 245 روپے میں بھی بمشکل مل رہا ہے۔پاکستان کی برآمدات بڑی تیزی سے گر رہی ہیں اور درآمدات کرنے والے تاجر بھی ڈالر کی کمی اور سخت قوانین کی وجہ سے بڑی پریشانی کا شکار ہیں۔ پاکستانی بندرگاہوں اور ڈرائی پورٹس پر ہزاروں کنٹینر پڑے سڑ رہے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ امپورٹرز کا جرمانہ بڑھتا جا رہا ہے۔اگرچہ حکومت نے Raw Materialکی امپورٹ سے پابندی اٹھا لی ہے لیکن محکمانہ مشکلات ابھی موجود ہیں اس کا براہ راست اثر ہماری برآمدات پر بھی پڑ رہا ہے۔مہنگی ترین بجلی کی وجہ سے بھی ہماری مصنوعات کی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ برآمدات میں ہم قیمت کی وجہ سے اپنے حریفوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔حکومت خود ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے اور کسی طویل المدت اور موثر پالیسی بنانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔عمران خان نے ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے جس طرح موجودہ حکومت کی کارکردگی کو عوام کے سامنے کھول کر پیش کیا ہے اس سے عوام میں حکومت کے بارے میں تحفظات اور زیادہ بڑھ گئے ہیں اور غیر یقینی کی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ حکومت کے چھوٹے بڑے عناصر ایک طرف تو اپوزیشن کو یہ ترغیب دے رہے ہیں کہ فی الحال سیاست کو ایک طرف رکھا جائے اور مل جل کر سیلاب کی آفت اور معیشت کے چیلنج سے نبٹا جائے لیکن عملی طور پر اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔خود عمران خان پر بیسوں مقدمے دائر کر دیے گئے ہیں جس میں دہشت گردی کا مقدمہ بھی شامل ہے۔ وزیر داخلہ جناب رانا ثناء اللہ کافی دن بعد ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں دکھائی دیے ہیں اور انہوں نے فرمایا ہے کہ 25 مئی کو تو ہم نے عمران خان کو رسوا کر کے واپس جانے دیا تھا لیکن آئندہ اسلام آباد آئے تو انہیں جانے نہیں دیا جائے گا۔ ایک نہایت ذمہ دار عہدے پر براجمان حکومتی شخصیت کا یہ بیان کس طرح مفاہمت کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔حالانکہ اس سے پہلے عمران خان اپنے ایک انٹرویو میں کافی نرمی کا مظاہرہ کر چکے تھے۔وہ حکومت اور امریکہ دونوں کے بارے میں کافی لچک کا مظاہرہ کر چکے تھے۔عوام کو عمران خان کے انٹرویو کے بعد حالات میں بہتری کی ایک کرن نظر آئی تھی جو کہ وزیر داخلہ کے انٹرویو کے بعد معدوم ہوتی نظر آتی ہے۔اس کے علاوہ ن لیگ کی نائب صدر بھی فرما رہی ہیں کہ اگر عمران خان لاڈلہ نہ رہے تو اسے تین دن میں نمٹایا جا سکتا ہے، یہ شخص سیاسی مخالفین کے لئے نہیں بلکہ ملک کے لئے خطرناک ہے۔عجیب منطق ہے کہ ایک لیڈر جو بیسوں مقدموں کا سامنا کر رہا ہے جس میں توہین عدالت اور دہشت گردی بھی شامل ہے وہ لاڈلہ ہے اور جو خاتون مجرم اور سزا یافتہ او نااہل ہونے کے باوجود پورے پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے وہ مظلومیت کا لبادہ اوڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔اس طرح اپنے مخالفین کے خلاف آگ اگلنے سے تو مفاہمت کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔مفاہمت کی زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ عمران خان بھی اپنے دور میں اپنے سیاسی مخالفین کو سپیس دینے میں ناکام رہے اور موجودہ حکومت نے تو سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں اطراف کے سنجیدہ لیڈر سامنے آئیں او مفاہمت کی بنیاد ڈالیں، اس سلسلے میں صدر مملکت اور مقتدر حلقے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ صدر مملکت نے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا اشارہ بھی دیا ہے جو کہ عوام کے لئے بہتر مستقبل کی نوید ہو سکتا ہے۔ شہباز شریف اور آصف زرداری بھی اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔وزیر اعظم کی حیثیت سے شہباز شریف کے سامنے انگنت چیلنجز ہیں، انہیں بیک وقت نواز شریف‘ مریم نواز اور تیرہ جماعتوں کو خوش رکھنا پڑتا ہے پتہ نہیں کس مجبوری کے تحت انہوں نے 8عدد تازہ دم معاونین خصوصی کا تقرر کیا ہے نہ ان کا کوئی محکمہ ہے نہ کوئی کام ایسا لگتا ہے کہ حکومت پاکستان کے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہے اور ضروری ہو گیا ہے کہ کابینہ کی تعداد زیادہ سے زیادہ رکھی جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو وظیفہ دیا جائے۔بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔مریم نواز نے شہباز شریف کے لئے ایک اور چیلنج کی بھی بنیاد رکھی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومتی عہدوں پر براجمان لوگ پارٹی عہدے خالی کر دیں۔شاید ان کی نظر پارٹی کی صدارت پر ہے شاید عدالتی ریلیف ملنے کی صورت میں وہ چاہتی ہیں کہ صدارت کا عہدہ ان کا منتظر ہو۔ اور تو اور اب تو وزیر بے محکمہ جناب جاوید لطیف نے لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی ذمہ داری بھی لے لی ہے اور کسی حکومتی عہدے دار نے اس کی مذمت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔شاید جاوید لطیف بھول گئے ہیں کہ مذہبی عدم رواداری کے ہی ایک واقعے میں ان کے سر پر کاری ضرب آئی تھی اور وہ عوام کے مجمع سے موٹر سائیکل پر فرار ہوئے تھے۔ایسی آگ لگانے سے گریز ہی مناسب ہے۔ خرابی بسیار کے بعد سب لوگوں کو مفاہمت کی طرف ہی آنا پڑے گا۔کوئی بھی تن تنہا اس ملک کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔جتنی جلدی ہو اتنا ہی بہتر ہے۔