پا کستان مسئلوں کا ایک ایسا پہاڑ ہے جس سے جتنے پتھر توڑے جائیں پہاڑ چھوٹا ہونے میں نہیں آتا۔ ہمارے حصے کی دْھوپ ہماری زمین تک آتی ہی نہیں۔ اس چٹیل پہاڑ کی وجہ سے ہماری سر سبز زمیں کلر زدہ ہوتیجا رہی ہے۔ لہلہاتا سبزہ اور فصلیں اس زمین میں بنجر ہوئی جاتی ہیں۔ اب رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کردی۔ کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ لوگوں کے کچے پکے مکانات بہہ گئے۔ سیلاب سے مزید اموات ہو رہی ہیں۔لاکھوں متاثرین فاقوں پر مجبور ہیں۔ سیلابی علاقوں میں لوگ درختوں کی ٹہنیوں پر چادریں ڈال کر خیمے بنائے پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اوپر سے ہمارے محترم خادم اعلیٰ، وزیر اعظم ازراہِ تفنن فرما رہے ہیں کہ سیلاب متاثرین کے دو ماہ کے بجلی کے بِل معاف کر دیے گئے ہیں۔ حضور! وہاں تو ان دنوں بجلی تو درکنار کھانا اور پینے تک کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ بجلی ہوگی تو بِل آئیں گے؟ حکومتیں بس اعلانات کرتی رہتی ہیں لیکن مضبوط حکمتِ عملی کبھی نظر نہیں آئی۔ اگر غور کیا جائے تو سیاست ایک ایسی سائنس ہے جس میں عوام اور ملکی ترقی کی سوچ اور احساس کو جلا ملتی ہے۔ آج کے جدید دور میں سیاسی تنقید پر ایک ترقی پسند تنقید شروع ہو گئی ہے۔ وہ یہ کہ ہر سیاسی پارٹی ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہوئے طعنہ زنی کرتی ہے۔ سائنس دراصل فطرت یا قدرت سے متعلق علم مہیا کرتی ہے۔ فطرت اور قدرت میں انسان، حیوانات، جمادات، نباتات سب چیزیں آجاتی ہیں۔ اگر سیاست کو سائنس سے جوڑا جائے تو یہ سماج میں طبقاتی فرق اور استحصالی افراد کو بغاوت پر مجبور کرتی ہے۔ پاکستان کی معیشت روز بروز سْکڑ رہی ہے۔ آئی۔ ایم۔ ایف بھی ہمیں بجلی کے ریٹ بڑھانے پر مجبور کر رہا ہے۔ ظاہر ہے جب کڑی شرائط پر قرضہ ملے گا تو سامراج کے قانون سے انحراف تو نہیں ہو سکتا۔ لا قانونیت تو صرف ہمارے وطن میں ہی ہے۔ جب کسی سماج کے اقلیتی (اشرافیہ) طبقے کے مفادات کے لیے قانون وضع کیے جائیں گے اور اکثریتی (عوام) طبقے کو فیصلہ سازی یا انصاف مہیا نہیں ہوگا تو لوگ آپس میں جھگڑوں اور لْوٹ مار پر اْتر آئیں گے۔ جیسا کہ ان دنوں کراچی کی گلیوں میں لْوٹ مار کی خبریں زدِ عام ہیں۔انشا جی یاد آ رہے ہیں۔ کیا خوب کہا تھا انہوں نے: جس جھولی میں سو چھید ہوئے اْس جھولی کا پھیلانا کیا لیکن ہم ہیں کہ قرض کی پیتے تھے مہ۔۔۔۔ والا حساب لیے وہی سوچھیدوں والی جھولی لیے بار بار آئی۔ ایم۔ ایف کا دروازہ کھٹکھٹاتے جاتے ہیں۔ آئی۔ ایم۔ ایف مالی امداد کا وہ ادارہ ہے جو 190 ممالک کی مالی ضروریات پوری کرتا ہے۔اس کا مشن دْنیا سے غربت کا خاتمہ، دنیا کو نقدی فراہم کرنے کرنا، مالی حالات کی پائیداری اور عالمی تجات کو فروغ دینا ہے۔ یہ 1945میں عمل میں آیا۔ 1950میں آئی۔ ایم۔ ایف نے غریب ممالک کو مشروط طور پر قرضے دینے کا آغاز کیا۔ جن ممالک کو ہنگامی بنیادوں پر قرضے کی ضرورت ہوتی ہے انہیں یہ ادارہ ایمرجنسی امدادبہم پہنچاتا ہے۔ یہ ادارہ اپنی پالیسیوں میں بظاہر معاشی نا ہمواری کی بہتری کے لیے کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آئی۔ ایم۔ ایف کی کڑی شرائط میں آمدنی میں سے اخراجات کم یا زیادہ کرنا۔ براہِ راست برآمدات پر توجہ دینا اور لی گئی امداد کی چارہ جوئی کرنا۔اپنے ملک کی لوکل کرنسی کی قدر میں تحفیف کرنا۔تجارت میں آزاد خیالی پیدا کرنا۔ متناسب بجٹ کے اندر ہی رہنا۔ ریاست کے خزانے سی دی گئی رقم سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی پابندی ہٹا دینا۔ اداروں کی نجکاری کرنا یا انہیں تباہ کرنا۔نیشنل لاء کے مطابق بیرونی سرمایہ داروں کے حقوق بڑھانا وغیرہ شامل ہیں۔ قرضہ لینے والا ملک اس پیسے کے استعمال سے اپنی معاشی بد حالی کو درْستی کی طرف لے جائے گا۔ غریب ملک جو قرضہ لیتے ہیں وہ ہمیشہ معینہ مدت میں قرضے کی واپسی سو فیصد یقین دہانی کے ساتھ واپس بھی کرتے ہیں۔ اب بتائیے اتنی کڑی شرطوں پر قرضہ لینا اور وقت پر ادائیگی کی تیز دھار تلوار لے کر چلنا کتنا مشکل ہے۔ ہمارا ملک ایک ایسا ملک جہاں پہلے ہی غربت کالے ناگ کی طرح پْھن اْٹھائے کھڑی ہے۔ آنے والے وقت میں شاید پاکستان کو غذائی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑے۔ وہ ملک جو کبھی دنیا میں گندم کی پیداوار کا بڑا ملک کہلاتا تھا اسے ان حالات کی شرمندگی بھی اْٹھانی ہوگی۔ اب تک ہمارے ملک کا گردشی قرضہ ساڑھے 22کھرب تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے باوجود سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہتی ہیں۔ موجودہ وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ ہم کسی دوست ملک کے پاس جائیں تو وہ کہتے ہیں مانگنے آئے ہیں۔ اْف! یہ جملہ کتنا شرم ناک اور تکلیف دہ ہے۔ دوسری طرف ملک بھر میں پینا ڈول جیسی عام سی گولی مارکیٹ سے مکمل طور پر غائب ہے۔ میں خود ایک ایسی بیماری کا شکار ہوں جس میں جسم کے اپنے ہی ٹِشوز اس کے خلاف لڑتے ہیں۔ میں پچھلے کئی برسوں سے متواتر صبح شام پینا ڈول کھاتی چلی آرہی ہوں۔ اب نہیں مل رہی تو جسم میں دردیں بلبلانا شروع ہو گئی ہیں۔ایسے میں سیلاب متاثرین ،ماؤں اور بچوں کا خیال آتا ہے کہ وہ جو بیماری میں مبتلا ہیں کیا کرتے ہوں گے۔ شعبہ ادویات بھی مافیا بن چکا ہے۔ سستی اور محفوظ ترین دوا بھی کھانے کو نہیں ملتی۔ کیا ایسے جرائم پیشہ لوگ کبھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے یا نہیں۔ کیا صرف چند دنوں کے لیے دکانیں بند کر دینا اور جرمانہ ڈال دینا اس کا حل ہے۔ لاقانونیت ہمارے معاشرے کا بدترین مسئلہ ہے۔ آخر ہم کب تک یہ نوحہ لکھتے رہیں گے کہ پاکستان مسائل کا پہاڑ ہے۔ خدارا! اوپر بیان کیے گئے مسائل سے چند ایک تو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جائے اور کچھ نہیں تو پیناڈول کی دستیابی کو ہی ممکن بنایا جائے۔