شجاع نواز کی کتاب The Battle for Pakistanکے اوراق کھولنے کیا بیٹھا کہ ہر باب ۔ ۔ ۔ ایک پورا کالم مانگتا ہے۔موضوعات ہی ایسے ہیں۔ ۔ ۔ مشرف ، بی بی این آر او،اور پھر اُن کی شہادت کے محرکات ۔ ۔ ۔ اسامہ بن لادن کی امریکیوں کے ہاتھوں ہلاکت، میمو گیٹ ،امریکی امداد ایک جال،پاکستانی فوج کی ٹرانسفارمیشن اور پاکستانی فوج کا Dilemma۔ ۔ ۔ مگر ابھی پی پی کی قائد کی شہادت میں خود پارٹی کے مرکزی قائدین کے مشکوک کردار کو ہی سمیٹا تھا کہ ایک نجی ٹی وی چینل کے اسکرین پر بدھ کی شب جو کچھ ہوا، اُس نے دہلا کر رکھ دیا۔ مہمان وفاقی وزیر فیصل واوڈا ،پی پی کے سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ اور ن لیگ کے سینیٹر جاوید عباسی اور اُن کے سامنے دھری میز پر فوجی بوٹ ۔ ۔ ۔ وقتی چیخ و پکار کے بعد اور سانحات کی طرح اس شرمناک واقعہ کی بھی گرد بیٹھنا شروع ہوگئی ہے۔ صرف یہ ہوا کہ ہمارے کپتان وزیر اعظم عمران خان نے اپنے لاڈلے وفاقی وزیر فیصل واوڈا پر دوہفتے کی پابندی لگادی ہے کہ وہ کسی چینل پر نہیںآئیں گے۔فیصل واوڈا کے ساتھ بیٹھے دومہمان قمر زمان کائرہ اور جاوید عباسی پروگرام کے نصف تک بیٹھے رہنے پر معذرت اور معافی مانگنے کے بجائے وضاحتیں دیتے پھِر رہے ہیں۔ خود نجی چینل کے اینکر اپنی اور دیگر اسکرینوں پر پھولے نہیں سما رہے کہ اُن کے پروگرام نے نہ صرف ratingsکے ریکارڈ توڑ دئیے بلکہ اپنے تمام چینلوں کے اینکروں کو چِت کر کے نمبر ون کا اعزاز حاصل کرلیا۔ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کومیں اپنے بارے میں گفتگو سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ مگر اس سانحہ ،جی ہاں، نجی چینل کی اسکرین پر جو کچھ دیکھا ،اُسے ایک سانحہ ہی کہوں گا۔ مجھے پاکستان کے پہلے آزاد نجی نیوز چینل انڈس نیوز کے پہلے اینکر یعنی میزبان ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ’’دوٹوک‘‘ کے نام سے پاکستان کی تمام بڑی سیاسی شخصیات کے ساتھ انتہائی جارحانہ سوالات کے سبب میڈیامیں اعتبار بھی ملا اور یافت بھی اتنی معقول ملی کہ بعد کے برسوںمیںزندگی آسان ہوگئی۔ ’دوٹوک‘ کے بعد ’مجاہد آن لائن‘ بھی کوئی چار سال چلا۔انڈس جب مسابقت کے سبب مالی مسائل کا شکار ہوا تو سی این بی سی پاکستان جوائن کیا،جہاں کوئی آٹھ سال خوشحالی کے گزارے ۔ ۔ ۔ تین سال چینل 24نیوز اور پھر ڈان نیوز۔ 17برسوں یعنی کم و بیش 200مہینوں ،6ہزار دنوں میںبغیر کسی وقفے کے آواز لگاتا رہا۔ ہر پروگرام کے مواد اور مہمانوں پر ایڈوائس اور بعد میں کسی غلطی پر وضاحت دینے کا ایک باقاعدہ میکنزم ہوتا تھا۔ ہاں ، یہ بھی اعتراف کرتاچلوں کہ میں خود سی این بی سی پاکستان میں ایک دوسرے میزبان کے پروگرام میں بیٹھنے پر 48گھنٹے پابندی کا شکار رہا کہ ادارے کی پالیسی کے برخلاف موقف اختیار کیا تھا۔جی ہاں،17برسوں میں صرف ایک بار ۔بعد میں لکھ کر معافی بھی مانگی ۔مگر ادھر سال دو سے جس طرح چھاتہ بردار اینکر وں نے اپنی سرکشی اور خودسری سے اسکرینوں کو جو اکھاڑا بنا رکھا ہے۔ ۔ ۔ اُس پر تو اب شرمندگی ہونے لگتی ہے کہ ہم بھی اسی ’قبیلے‘ سے دودہائی تک وابستہ رہے۔ سب سے بڑے ،معذرت کے ساتھ، ’مجرم‘ تو اینکر ہیں۔پھر ذمہ داری پیمرا کی ہے۔جس کی روز کے حساب سے چٹھیاں چینلوں کو ملتی ہیں۔موصوف وفاقی وزیر اور اُن کی پارٹی اور قائد کے بارے میں اس لئے کچھ نہیں کہوں گا کہ ایک بار پھر معذرت کیساتھ ہماری سیاسی جماعتوں میں اوپر سے نیچے تک کوئی اخلاقیات کا کلچر ہے اورنہ ہی شریفانہ سیاست کی روایت ۔ساری مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کو ’چور‘ ،ڈاکو، اور کرپٹ کہنے والی جماعت کے قائد کی کور کمیٹی اور کابینہ پر نظر ڈال لیں۔ ۔ ۔متعلقہ موصوف وزیر توخود بنی گالہ کے لاڈلے اور معتمد ِ خاص ہیں۔مگر انتہائی مودبانہ اور احترام کے ساتھ کہ کیا آئی ایس پی آر کے ترجمان کا یہ فرض نہیں بنتا تھا کہ وہ اس کا نوٹس لیتے کہ ’وردی‘ ،کیپ اور بوٹ اس ادارے کی پہچان اور قابلِ احترام ہیں کہ یہی وردی،کیپ اور بوٹ سویلین پر کسی فوجی کو فوقیت اور اولیت دیتے ہیں۔کڑے سے کڑے وقت میں بھلے جان چلی جائے ایک فوجی اس پر آنچ آنے نہیں دیتا ۔ یہاں تک پہنچا ہوں تو خیال آیا کہ جذباتیت غالب آگئی۔ ۔ ۔ اس سے بھی بڑے بڑے سانحات اور واقعات وطنِ عزیز میں ہوئے ۔کونسا پہاڑ ٹوٹ پڑا ،کونسا کرپٹ سوُلی پر چڑھا،ایک ماڈل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’لاڈلی‘‘ ہونے کے سبب تین سال میں 72پھیرے دوبئی کے لگائے۔کسی پھیرے میں 5لاکھ ڈالر سے کم نہیں ہوتے۔چند ماہ کیلئے پکڑی بھی گئیں ۔مگر اب کس دیس میں بستی ہیں،اس بارے میں میری معلومات غریب ہیں۔اور پھر شریفوں اور زرداریوں اور اُن کے شریکوں کا کونسا بال بیکا ہوگیا۔ ۔ ۔ پی پی کے ایک صوبائی وزیر پر 565ارب کے گھپلے کا الزام تھا ۔غالباً سال بھر جیل کاٹی۔موصوف ان دنوں اپنے فارم ہاؤس پر پکنک منا رہے ہیں۔’’حسن، حسین نواز‘‘ اور وہ ارب پتی سندھ کا مالی۔ ۔ ۔ توبہ توبہ ۔ رکھیو غالب ؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف اچھے خاصے ایک انتہائی اہم موضوع پر لکھی کتاب سے لطف اندوز ہوکر قلم کی گھسائی میں مصروف تھا۔ ۔ ۔ شجاع نواز کی کتاب ،پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ حالیہ سیاسی تاریخ کے حوالے سے ایسی مستند دستاویز ہے کہ جس کا مطالعہ صحافت کے ہر طالب علم کیلئے لازمی ہے کہ اس میں پہلی بار پاکستانی فوج ،اس کے سویلین حکومتوں سے تلخ وترش تعلقات اور پھر امریکہ کی نادان دوستی سے جو ہم نے زخم کھائے ہیں۔ ۔ ۔ اُسے اتنے موثر پیرائے میں قلمبند کیا گیا ہے کہ آئندہ کوشش ہوگی کہ اس پر ایک دو کالم توضرور کھینچ دوں۔گرچہ 92کے ادارتی دوستوں کا اکثر شکوہ ہوتا ہے کہ یہ جو کالم پہ کالم آپ باندھتے ہیں ،تو کیا ضروری ہے کہ آپ کا پچھلا کالم بھی پڑھا گیا ہو۔ چلیں اس پر معذرت اورمعافی ۔مگر اسکرین پر بوٹ رکھ کر جو تذلیل اداروں اور اس سے بڑھ کر قوم کی ،کی گئی ہے اس پر افسوس کہ آنکھوں سے لہو بھی نہیں ٹپکتا۔ ایک طبقے کا یہ خیال ہے کہ یہ سارا کچھ ہمارے محترم خان صاحب کے لاڈلے وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے طفیل ہوا۔ امید ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے بڑے اس سارے معاملے پر مٹی پائو کہہ کر آگے نہیں بڑھ جائیں گے بلکہ فوری طور پر پیمرا، پی بی اے کا ایک ہنگامی اجلاس ہونا چاہئے جس میں ناصرف اس واقعہ کے حوالے سے ایک ایسی مثالی کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں چینلوں پر اس طرح کے سانحات نہ ہوں۔ ماضی میں بھی ہماری حکمران جماعت تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور حکومت میں معاون محترم نعیم الحق ن لیگی رہنما کو لائیو شو میں تھپڑ مار چکے ہیں۔ سکرین سے باہر تو حکمران جماعت کے وزیر اینکروں کو تھپڑ مارنے کے حوالے سے قومی شہرت کے حامل ہو گئے ہیں۔