یہ جو اک صبح کا ستارا ہے دن نکلنے کا استعارا ہے لوگ دل سے نہ کیوں لگائیں ہمیں ہم نے غم شعر میں اتارا ہے پھر ساتھ یہ بھی خیال آتا ہے کہ، اس کو بھولا ہوا ہوں مدت سے۔جو مرا آخری سہارا ہے۔ خیر بات تو مجھے آج کرنی ہے شاعری کی کہ اس کی نموکہاں سے ہوتی ہے کہ میر نے کہا تھا ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے، دردو غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا۔ذہن کی ڈائری کا ایک ورق اس وقت کھلا جب میرے ہاتھ میں ایک شعری مجموعہ’’ کہاں گمان میں تھا‘‘ آیا چوبیس سال ادھر کی بات ہے کہ میں ایک اخبار میں جمیل احمد عدیل سے ملنے گیا تو وہاں جناب توصیف احمد سے ملاقات ہو گئی ،کہنے لگے آپ اچھے خاصے شاعر ہو کالم کیوں نہیں لکھتے۔میں نے کہا کہ مجھے تو اس حوالے سے کچھ بھی معلوم نہیں کمال کے آدمی تھے کہنے لگے یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم آپ کل پرسوں کالم لکھ کر لائیں گے ۔ مختصر یہ کہ میں نے حکم کی تعمیل کی انہوں نے کالم کا نام خود ہی رکھا ’’بادنما‘‘ ایک لڑکی خالدہ کو بلایا اور کہاکہ یہ کالم کمپوز کر کے چھاپیں۔ پھر یہ ہوا کہ ڈاکٹر خالدہ انور سے علیک سلیک ہو گئی ، پتہ چلا کہن کا بھائی سجاد تو ہمارا دوست ہے ۔پھر نسیم اختر محترمہ کی طرف سے ادبی پروگرام ہوئے تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر خالدہ سنگر بھی ہیں۔ ہمارا ایک قافلہ اسلام آباد گیا تو ہم وہاں احمد فراز صاحب کے بنائے ہوئے فراز ہائٹس میں رہے ،وہاں ایک پروگرام فراز صاحب کی صدارت میں محبوب ظفر نے رکھا نسیم اختر ‘ شبی الماس ‘ شہزاد ذوالقرنین اور ڈاکٹر خالدہ ان میں تھے۔میں نے ایک چینل پر پروگرام شروع کیا تو شبی الماس اور خالدہ اکثر پروگرامز میں مہمان ہوتیں۔ان کے اشعار بہت پسند کئے گئے: یاد تجھ کو کیا جلا کے چراغ اور ماتم کیا بجھا کے چراغ سر میں چاندی اگی تو ہاتھوں میں جلتے بجھتے رہے حنا کے چراغ کئی محافل سخن میں انہیں سنا۔خاص طور پر وہ تقریب حرز جاں بن گئی کہ محترمہ بشریٰ رحمن نے اپنے وطن دوست دفتر میں موقر ادیبوں شاعروں کو بلا رکھا تھا، اس میں ڈاکٹر خالدہ کے ساتھ ان کی عزیز ترین سہیلی اور اور طرحدار شاعرہ سعدیہ قریشی بھی تھیں۔اس میں ڈاکٹر اختر شمار بھی تھے۔انہی دنوں میں ان کی ایک غزل خاصی مقبول ہوئی ۔ جو مڑ کے دیکھا وہ منظر کہاں گمان میں تھا تمہارے ہاتھ میں خنجر کہاں گمان بھی تھا بڑے ہی شوق سے مانگیں دعائیں بیٹی کی یہ بیٹیوں کا مقدر کہاں گمان میں تھا بات یہ ہے کہ خالدہ کے مزاج اور طبیعت میں بہت سنجیدگی ہے، کم گو اور کم آمیز ۔یہی چیز ان کے سخن میں در آئی ہے۔کچھ مشکل پسندی نے گھمبیرتا بھی پیدا کر دی ہے ۔ ہر لڑکی یا عورت جو اپنی عزت اور تکریم خود کرتی ہے وہی اس کی زندگی حاصل ہوتا ہے۔ ایک اور بات جس کا تذکرہ سعدیہ قریشی نے بھی اپنے کالم میں کیا تھا وہ ان کی اپنی ماں کے ساتھ اٹیچ منٹ تھی۔سب کو ہوتی ہے مگر حساس روحیں اور ہوتی ہیں‘ خالدہ کو ان کی والدہ ڈھیروں دعائیںدیتی تھیں۔ اپنے والد انور صاحب کے ساتھ بھی وہ اسی طرح ہیں۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ شاعری شاید شخصیت کو اچھا نہیں کرتی مگر اچھی شخصیت شاعری کو چار چاند لگا دیتی ہے: نسخہ ہائے زندگی میں کیسا سنبھلنے کا ہنر اس میں تو بس درج ہے جاں سے گزرنے کا ہنر رات دن ،سورج ،جوانی ،حسن ،شام زندگی چھین لے ان سے کوئی اے کاش ڈھلنے کا ہنر بنیادی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر خالدہ انور کی شاعری ایک اوریجنل سخن ور کی کہانی ہے، اس نے اپنے شب و روز کے مشاہدات اور تجربات جذبے کی آنچ پر ڈھالے ہیں بعض جگہ تو وہ ایسی رواں دواں نظر آئی ہیں جیسے آبشار ہو۔بے ساختہ اور خود کار سا انداز: ’’زہر اس زیست کا پھانکتے پھانکتے۔ پا لیا ہے ہدف ہانپتے ہانپتے‘‘ ’’ہاتھ سورج کے اب تو جھلسنے لگے۔ سائباں دھوپ کا تانتے تانتے‘‘ ’’ناتواں اور نازک سا عہد وفا۔ ٹوٹ جانے لگا باندھتے باندھتے‘‘ ’’اپنی قسمت میں لکھی نہ تھیں منزلیں۔ خاک خود ہو گئے چھانتے چھانتے‘‘ ’’کیا ہے یہ زندگی‘ کیا ہے وہ زندگی۔ عمر ساری کٹی جانتے جانتے‘‘ ’’جانچ ہم کو تو الٹی گلے پڑ گئی۔ وہ تو جاں بن گئے جانچتے جانچتے اس غزل میں ابھی کئی اشعار باقی ہے۔یہ شعری وفور جذبوں کا پتہ دیتا ہے۔ ایسی خود دار شاعرات کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پی آر نہیں کر سکتیں۔مگر اکثر ایسا ہی ہے کہ شاعرات شاعری نہیں کرتیں پی آر کرتی ہیں۔ ہماری ثمینہ راجہ بھی سر پیٹتی رہیں کہ اوریجنل سٹف آگے نہیں آ پاتا۔ میں اس حوالے سے مزید لکھنے سے گریز کروں گا کہ میرے خلاف ان شاعرات کا محاذ کھل جائے گا۔ میں اس شعری مجموعے تک ہی محدود رہوں گا۔اس کا فلیپ محترم افتخار عارف صاحب نے تحریر فرمایا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ خوش نصیب ہوتے ہیں وہ افراد جو امانت کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے ہنر کے عطیہ خداوندی کو حسن و خیر کی ترجمانی میں لگا دیتے ہیں۔وہ ان کے شاندار ادبی مستقبل کے لئے دعا گو بھی ہیں۔ ڈاکٹر خورشید انور صاحب نے بھی ان کی توصیف کرتے ہوئے ان کا خوبصورت نعتیہ شعر درج کیا ہے: کاش ہوتی میں اک کھجور کا باغ جو کہ ہوتا مرے حضورؐ کا باغ اور یہ کہا کہ خالدہ انور کی نظر میں کمال ہنر کی اساس غذائے غم ہے، ان کی تمثیلیں اور استعارے جاندار ہیں، اب اتنی بڑی گواہی کے بعد ہم کیا لکھیں ۔ہم تو ڈاکٹر خالدہ انور کی کامیابیوں پر خوش ہیں اور دعا گو بھی اللہ انہیں اور زیادہ عزت سے نوازے۔ان کے ایک شعر کے ساتھ اجازت: رنگ کو نور کو باندھے رکھنا کیسے ممکن ہے بھلا پیار کو باندھے رکھنا ٭٭٭٭٭