عمران خان ناکارہ ہیں، بالکل ناکارہ۔ نجات چاہئیے، ضرور اس سے نجات چاہئیے مگر آئینی اور جمہوری طریق سے اور ایک بہتر متبادل کے لیے۔ ان کے لیے نہیں، جو ملک کو چراگاہ بنا دیں۔ ایک ہفتہ پہلے ہی نون لیگی دانشوروں نے کپتان کو گھر بھیج دیا تھا۔ نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ بھی سونپ دی تھی۔مفاد پرستوں اور اندھے پیروکاروں کے سوا عمران خان سے کس کو ہمدردی ہے۔ حکومت کے اچانک انہدام سے ملک کو مگر کیا ملتا۔ ہولناک عدمِ استحکام۔ عمران خان پر اعتراضات بیشتر بجا ہیں مگر شہدا کی زمینیں ہڑپ کرنے والے مولوی صاحب؟ کرنل قذافی، صدام حسین اور پرنس مقرن کے سائے میں سیاست فرمانے والے۔امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن سے کہا کہ انہیں بادشاہ بنادیا جائے۔وزیرِ اعلیٰ اکرم درانی کو واشنگٹن بھیجا کہ آداب بجا لائیں۔ ایک سرکاری عشائیے میں ملک بھر کی قومی شخصیات کی موجودگی میں ٹونی بلئیر کو ’’اعتدال‘‘ کی یقین دہانی کرائی تھی۔ چوہدری نثار اور عمران خاں حیرت سے دیکھتے رہے۔ ان کی فصاحت کے قائل ہو گئے۔ 2002ء کے الیکشن سے پہلے جنرل مشرف نے اپنی کابینہ کو بتایا تھا کہ مولوی صاحب نے دہلی میں خوب داد پائی ہے۔ والدِ محترم مفتی محمود دنیا سے مقروض اٹھے۔ مولوی صاحب نے یہ بات مقبوضہ کشمیر کے سجاد لون کو خود بتائی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اضافہ کیا کہ اب وہ شاد و آباد ہیں۔کیوں نہ ہوتے، بے نظیر، پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں میں حصہ رسدی نہیں، اس سے زیادہ پایا۔ ٹھیک اس وقت، پرویز مشرف جب اپنے ساتھیوں کو بتا رہے تھے کہ اجیت دوول سے مولوی صاحب نے ملاقات کی ہے، دہلی میں پریس کانفرنس فرمائی کہ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان پھر سے یکجا ہو سکتے ہیں۔ واپس تشریف لائے تو دو اہم واقعات رونما ہوئے۔ قاضی حسین احمد نے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی کہ یہ خبر جھوٹی ( Dis information) ہو سکتی ہے۔ منور حسن نے فوراً قاضی صاحب کی تردید کر دی۔ اس لیے کہ خبر سو فیصد سچی تھی۔ دوسرا یہ کہ پرویز مشرف سے ساز باز کی۔ خود اس ناچیز کو بتایا: صدر صاحب انتخابی اتحاد چاہتے ہیں۔ ہم نے ان سے کہا: انتخابی سیاست الگ،مملکتی سیاست میں آپ کا ساتھ دیں گے۔ پشتونوں کا لہو بیچا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی کرسی پر بیٹھ کر فوجی وردی میں حکومت کرنے کی تائید کی۔ آخری دنوں میں قاضی حسین احمد نے سرحد اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دی تو پنجابی محاورے کے مطابق پروں پہ پانی پڑنے نہ دیا۔ زرداری اور نواز شریف، دونوں حکومتوں میں کشمیر کمیٹی کے چئیرمین رہے۔ ایک وفاقی وزیر سے د س گنا زیادہ مراعات، غیر ملکی دورے۔ مالِ غنیمت ہی مالِ غنیمت۔ شہدا کی زمینیں اسی زمانے میں الاٹ کرائی تھیں۔ انصار عباسی کی کم از کم وہ کہانی بالکل درست تھی۔ ابتدائی معلومات خاکسار ہی نے فراہم کی تھیں۔ آغاز ڈیزل کے پرمٹ سے ہوا تھا۔ مولانا محمد خاں شیرانی اور دوسرے رفقا نے اعتراض کیا تو کہا کہ ساری کمائی افغان مجاہدین کو بھیجی ہے۔ ایسی رسوائی کہ نام ہی مولانا ڈیزل پڑ گیا۔ تحریکِ پاکستان کی مخالفت پر اسی طرح کمر بستہ رہے۔2019ء کو اسلام آباد کے احتجاجی مظاہرے میں اعلان کیا کہ ان کی تحریک دو سو سال سے چلی آتی ہے۔اسی تحریک نے پاکستان کی مخالفت کی تھی۔شیخ محمود الحسن، حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری،حتیٰ کہ وہ مولانا حسین احمد مدنی کے وارث بھی نہیں بلکہ ایک کشکول بردار جہاں گشت۔ مولانا عبد الستار خاں نیازی کی روایت یہ ہے کہ صاحبزادے کی موجودگی میں مفتی محمودحساس گفتگو سے گریز کرتے۔ بلاول بھٹو؟ آئے دن جو واشنگٹن یاترا کو جاتے ہیں۔ پچھلی بار اپنے دونوں ساتھیوں کو بتائے بغیر نیویارک سے واشنگٹن پہنچے۔ خدا جانے، کس سے ملے،کیا بات کی؟ اسفند یار ولی؟ جن کی کاروباری وجاہت اور ’’بہادری‘‘ لوک کہانیوں میں ڈھل چکی۔ غفار خاں اور ولی خاں جو کچھ بھی تھے مگر تھوڑا سا رکھ رکھاؤ، کچھ وقار۔ اسفند یار نے سب کچھ بیچ ڈالا۔ قائدِ اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف؟ دو اڑھائی برس سے خلقِ خدا پوچھ رہی ہے کہ کشمیریوں کے قتلِ عام پر بات کیوں نہیں کرتے؟ کلبھوشن کا نام کیوں نہیں لیتے۔ قصاب مودی کی مذمت کیوں نہیں کرتے۔ بھارتی مسلمانوں کی پامالی پر چپ کیوں سادھ رکھی ہے۔ احسن اقبال کی مانی جائے تو ٹیپو سلطان سے کم دلاور نہیں مگر جیل جانے کے تصور ہی سے کانپ اٹھتے ہیں۔ مچھر تو خیر ہوں گے ہی، قلع ِ اٹک میں انہیں بچھو بھی دکھائی دیتے۔ صدر کلنٹن، شاہ عبد اللہ اور لبنان کے رفیق الحریری کی مدد سے رہائی پا کر جدہ پہنچے۔ مجید نظامی سے خود کہا تھا: سب کچھ بھگت سکتاہوں، جیل نہیں۔ وزارتِ اعلیٰ اور وزارتِ عظمیٰ بھگت سکتے ہیں، کارخانے اور جعلی کمپنیاں بھگت سکتے ہیں، قید و بند نہیں۔یادداشت پہلے ہی خراب تھی۔ اڈیالہ جیل پہنچے تو بالکل ہی تحلیل ہو گئی۔ پنج ستارہ ہوٹلوں کا کھانا کھاتے مگر پیہم گریہ اور پیہم آہ و زاری۔ تھوڑی سی ریاضت کسی کو کرنی چاہئیے۔ پاکستان کے تمام سپہ سالاروں اور نریندر مودی کے ساتھ ان کی تصاویر یکجا کردے۔ قاتل کے ساتھ وہ آسودہ ہیں۔ پاکستان کے ہر فوجی سربراہ سے رنجیدہ، جن میں سے تین کا انتخاب خود انہی نے کیا تھا۔ پاک فوج کو پنجاب پولیس بنانے میں کامیاب ہو جاتے تو شاید شادماں رہتے۔ بھارت میں فولاد کی صنعت کے بادشاہ سجن جندال سے وعدہ کیا کہ کابل سے آگے خام لوہے کے ذخائر تک ریلوے لائن بچھائیں گے۔ فوجی قیادت نے منصوبے میں خامیوں کی نشاندہی کی تو کہا: آپ لوگ بنانا چاہتے ہی نہیں۔ جنرل عامر ریاض کا جواب یہ تھا: آپ بالکل ٹھیک سمجھے۔بھارتیوں کے لیے ہم کیوں بنائیں۔ لاہور میں کھلے عام اعلان کیا کہ پاکستانیوں اور بھارتیوں کا رب ایک ہے۔ اس طرف اشارہ کیا کہ ان کا رہن سہن اور تہذیب و تمدن یکساں ہے۔ ہزاروں بار سنایا اور دہرایا گیا قائدِ اعظم کا قول یہ تھا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ایک الگ قوم ہیں۔ فنِ تعمیر سے موسیقی تک، ہر چیز میں الگ۔سچے اور کھرے آدمی نے کہا تھا ’’ہمارے ہیرو ان کے ولن ہیں اور ہمارے ولن ان کے ہیرو۔‘‘ محمود اچکزئی؟ جس نے بیک وقت ایرانی خفیہ ایجنسی اور پاکستان میں تخریب کاری کی مرتکب خدمتِ اطلاعات دولتی کے لیے خدمات انجام دیں۔ اہلِ پنجاب کو جو انگریزوں کا ایجنٹ کہتا ہے۔ مہاجروں کی تحقیر میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ عمران خان ناکارہ ہیں، بالکل ناکارہ۔ نجات چاہئیے، ضرور اس سے نجات چاہئیے مگر آئینی اور جمہوری طریق سے اور ایک بہتر متبادل کے لیے۔ ان کے لیے نہیں، جو ملک کو چراگاہ بنا دیں۔