آج کل 18 ویں ترمیم کے بارے میں بحث ہو رہی ہے اور تحریک انصاف کی حکومت کا کہنا ہے کہ ہم 18و یں ترمیم کو بہتر کرنا چاہتے ہیں ۔ خصوصاً 18 ویں ترمیم میں صوبوں کو اختیارات کے بارے میں تحریک انصاف کی حکومت کو تحفظات ہیں ۔ 8 اپریل 2010ء کو قومی اسمبلی سے 18 ویں ترمیم منظور ہوئی ،19 اپریل 2010ء کو صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بل پر دستخط کئے جس کے بعد یہ آئین کا حصہ بن گئی۔ تحریک کی محرک پاکستان پیپلز پارٹی تھی ، یہ پہلا موقع تھا کہ آصف علی زرداری نے صدر ہوتے ہوئے عہدہ صدارت کے اختیارات واپس کر دیئے۔ اس ترمیم کے ذریعے جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ ترمیمیں ماسوا ایک (جس کا ذکر آگے ہوگا) ختم کی گئیں ، اس ترمیم کے ذریعے 1973ء کے آئین میں 100 کے قریب تبدیلیاں کی گئیں جو 83 آرٹیکلز پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعے ہی صوبوں کو خودمختار دی گئی ، اور تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی شرط کو ختم کر دیا گیا ۔ صوبائی خود مختاری کا مطالبہ بہت پرانا ہے ، تقسیم سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کرتی رہی ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد تمام اختیارات مرکز کو دیئے گئے تو مشرقی پاکستان سے صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا جاتا رہا اور مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں سے بھی صوبائی خودمختاری کی آوازیں بلند ہوتی گئیں ۔ مشرقی پاکستان سے مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ ساتھ مغربی پاکستان سے جی ایم سید ، باچا خان ، میر غوث بخش بزنجو، عبدالصمد اچکزئی ، ریاض ہاشمی و دیگر صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کرتے رہے ۔ صوبائی خودمختاری دینے کی بجائے مرکز نے 1954ء میںون یونٹ کا ڈھونگ رچایا اور مغربی پاکستان کو ایک صوبہ قرار دے دیا اور اس کا دارالحکومت لاہور کو بنا دیا اور مغربی اور مشرقی صوبوں میں مساوات کا اصول اپنایا گیا ۔ ون یونٹ کے قیام کے فوری بعد اینٹی ون یونٹ فرنٹ بنا ، جس میں سابق ریاست قلات ( بلوچستان صوبہ نہیں بنا تھا ) ، صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ کیساتھ ساتھ بہاولپور سے ریاض ہاشمی اینٹی ون یونٹ کمیٹی کے ممبر تھے ۔ ون یونٹ پاکستان کو دو لخت کرنے کا باعث بنا اور سقوط مشرقی پاکستان سے محض دو سال قبل ون یونٹ کا خاتمہ ہوا ۔ اصولی طور پر چھوٹے صوبوں کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کے نمائندے صوبائی خود مختاری کی حمایت کرتے آ رہے ہیں ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو ملنے والے اختیار کا وسیب کو صوبہ نہ ہونے کی وجہ سے نقصان ہوا ۔ جیسا کہ صوبائی خود مختاری کے ذریعے پنجاب اور خیبر پختونخواہ نے بھاری بھرکم مالیاتی ایوارڈ حاصل کیا مگر سرائیکی اضلاع کو اس کا حصہ نہ ملا ، اسی بناء پر ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ نیشنل ایوارڈ کے ساتھ ساتھ صوبائی ایوارڈ کا بھی اجراء کیا جائے اور صوبائی ایوارڈ کے ذریعے ہر ڈسٹرکٹ کو اس کی آبادی کے مطابق حصہ دیا جائے ، مگر ہمارے معقول مطالبے کو تسلیم نہ کیا گیا ، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اس پر توجہ نہ دی مگر جب وہ اقتدار کی کرسی سے نیچے آئے تو ملتان پریس کلب میں کہا کہ آپ کا مطالبہ درست تھا ، اب میں بھی صوبائی ایوارڈ کا مطالبہ کرتا ہوں ۔ بات صرف یہ نہیں کہ پیپلز پارٹی نے مالیاتی ایوارڈ کے موقع پر وسیب کے بات نہیں مانی بلکہ 18 ویں ترمیم کے موقع پر بھی پاکستان پیپلز پارٹی نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ، وسیب کی تمام قوم پرست جماعتوں نے 18 ویں ترمیم کے موقع پر مطالبہ کیا تھا کہ آپ صوبہ سرحد کو شناخت دے رہے ہیں ، حالانکہ ان کا اپنا صوبہ موجود ہے ، محض نام کا مسئلہ ہے ، جبکہ 18 ویں ترمیم میں سرائیکی صوبے کے مسئلے کو شامل کریں اور جنرل ضیا الحق کی طرف سے 8ویں ترمیم میں اس شق کا بھی خاتمہ کریں جس میں نئے صوبے کے قیام کیلئے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کے منظوری کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ 1973ء کے آئین میں نیا صوبہ بنانے کا فارمولا یہ تھا کہ ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس کر کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کو بھیجے اور سینیٹ دو تہائی اکثریت کے ساتھ نئے صوبے کی منظوری دے ، 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لگا کر 73ء کا آئین معطل کر دیا ،1977ء تا 1985ء آئین معطل رہا، ضیاء الحق نے اپنے غیر آئینی اقدامات کو آئینی بنانے کے لئے غیر جماعتی الیکشن کا ڈھونگ رچایا اور 1985ء میں ترمیم شدہ آئین بحال ہوا ،جسے آئین آٹھویں ترمیم ایکٹ 1985ء کا نام دیا گیا ۔ 1973ء کے آئین کے 67دفعات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ۔ ان میں ایک شق یہ بھی تھی کہ نیا صوبہ بنانے کیلئے قومی و صوبائی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت کیساتھ ساتھ متعلقہ صوبائی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت بھی ضروری ہے ۔ حالانکہ نیا صوبہ بنانا یا بننا آئینی تقاضا ہے تو صوبائی اسمبلی آئین ساز ادارہ نہیں ہے ۔ 18 ویں ترمیم کے موقع پر صدر آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی اور آئینی اصطلاحات کمیٹی کے چیئرمین رضا ربانی نے بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرائیکی صوبے کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ترمیم کو باقی رکھا ۔ زرداری کو خوف تھا کہ اگر یہ ترمیم ختم ہوتی ہے تو مہاجر صوبے کی راہ ہموار ہو جائے گی ، جس کا واضح مطلب میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا تھو والا تھا ۔ آج بھی اگر 18ویں ترمیم کو دیکھنے کی ضرورت ہے تو اس شق کے حوالے سے ہے ۔ 18ویں ترمیم میں بلدیاتی نظام کو ضروری قرار دیا گیا ہے اور صوبوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ بلدیاتی الیکشن کرائیں گے ۔ مگر بلدیاتی سسٹم کو سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے پہنچایا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ڈھونگ بن کر رہ گئے ہیں ۔ 18ویں ترمیم کو اگر دیکھنے کی ضرورت ہے تو اس بنا پر ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد ارکان اسمبلی کے اختیارات پارٹی لیڈر کو سونپ دیئے گئے ہیں اور ارکان اسمبلی کو محتاج محض اور ربڑ اسٹیمپ بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور پارٹی لیڈر کی بادشاہت قائم کر دی گئی ہے جو کہ جمہوریت کے ساتھ بدترین مذاق ہے ۔ اب وسیب کا موقف یہ ہے کہ آئین سازی کے موقع پر سرائیکی وسیب کو وفاقی اکائی قرار دیا جائے اور وسیب کے کروڑوں افراد کو فریق تسلیم کرتے ہوئے اس کی مشاورت سے آئین سازی کی جائے ۔