کورونا کے باعث ہر قسم کی سرگرمیاںجمود کا شکار ہیں، سیاست پر بھی اس کے اثرات نظر آ رہے ہیں ۔ اٹھارویں ترمیم کی بحث نے البتہ کچھ ہل چل پیدا کی ہے ۔اگرچہ مدلل بحث کے بجائے دونوں اطراف سے طعن وتشنیع کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے معاملہ کو پیچیدہ بنانے کے بجائے سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ یہ آئین میں ہونے والی ایک ترمیم ہے، جسے مروجہ اصول وضوابط کے مطابق یعنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ نے منظور کیا۔ اس سے پہلے بھی آئین میں ترامیم ہوئیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی کئی ترامیم ہوچکی ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے کچھ ہی دنوں بعد سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی اس طرف توجہ دلائی تھی کہ اس ترمیم میں بعض ابہام رہ گئے ،جنہیں دور کیا جائے۔ پارلیمنٹ کو اس پر انیسویں ترمیم کرنا پڑی۔یہ بھی اہم بات ہے کہ اٹھارویں ترمیم ایک معمول کی اسمبلی نے منظور کی تھی، یعنی وہ دستور ساز اسمبلی نہیں تھی۔یہ امتیاز صرف تہتر کا آئین منظور کرنے والی اسمبلی کو حاصل ہے کہ وہ دستورساز اسمبلی تھی ۔ ستر کے انتخابات میں مینڈیٹ کا ایک مقصد نیا آئین بناناتھا۔ اس وقت جنرل یحییٰ خان کا عبوری آئین (PCO)ہی چل رہا تھااور نئی اسمبلی نے منتخب ہونے کے بعد نیا آئین بنانا تھا، بعد میں تہتر کا آئین منظور کر کے یہ ذمہ داری پوری کی گئی۔2008ء کی اسمبلی کو یہ امتیاز حاصل نہیں تھا۔ اس لئے اٹھارویں ترمیم کو کسی قسم کا خاص استحقاق یا تقدس حاصل نہیں۔ ہمارے آئین میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ دنیا کے بعض ممالک میں انہیں آئین کا بنیادی ڈھانچہ (Basic Structure)قرار دیا گیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک سے زائد فیصلوں میں بھارتی آئین کی کئی شقوں کو بیسک سٹرکچر قرار دیا ہے کہ انہیں بھارتی پارلیمنٹ بھی نہیں تبدیل کر سکتی۔کیساوانندرا بھارتی بنام ریاست کیرالہ کیس میں جسٹس ہنس راج کھنا نے یہ اصطلاح استعمال کی۔جبکہ اس کے بعد ایک اور مشہور کیس منروا ملز بنام یونین آف انڈیا میں بھارتی سپریم کورٹ نے بیسک سٹرکچر کو مزید وسیع کر دیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ کی دلیل یہ تھی کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا حق حاصل ہے، مگر اسے تباہ کرنے کا نہیں۔ بھارتی عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ جیسے سیکولر ازم بھارتی آئین کی روح ہے تو کوئی پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کے نام پر بھارتی سیکولر ریاست کو غیر سیکولر نہیں بنا سکتی۔ اسی طرح بنیادی انسانی حقوق سے عدلیہ کی آزادی اور بعض دیگر معاملات کے بارے میں کہا گیا،لگ بھگ دس بارہ نکات ہیں جن میں چھیڑچھاڑ بھارتی اعلیٰ عدالتوں نے ممنوع قرار دی۔بنگلہ دیش میں انور حسین چودھری بنام بنگلہ دیشی حکومت کیس میں وہاں کی سپریم کورٹ نے بھارتی عدالتوں کے فیصلوں کے استدلال کو ہی آگے بڑھایا۔ پاکستانی سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کے حوالے سے مشہور ظفر علی شاہ کیس میں پانچ چیزوں کو بیسک سٹرکچر قرار دیا تھا، ان میںبنیادی انسانی حقوق، پارلیمانی نظام، وفاقی طرز حکومت، آئین کی اسلامی دفعات اور عدلیہ کی آزادی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں فوجی حکومت کو(بوقت ضرورت) آئین میں ترمیم کی اجازت دی تھی، مگر پابندی لگائی کہ ان پانچ چیزوںکو نہ چھیڑاجائے۔چند سال پہلے البتہ فوجی عدالتوں کو جائز قرار دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں جہاں بہت سے نئے نکات سامنے آئے، ان میں بیسک سٹرکچر پر سوالات بھی اٹھائے گئے،جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس پر خاص طور سے بحث کی۔ قارئین کے علم میں یہ بات لانا بھی ضروری ہے کہ دنیا بھر اور پاکستان میں ماہرین قانون کا ایک حلقہ اس بیسک سٹرکچر کی دلیل کو تسلیم نہیں کرتا۔ ان کے مطابق پارلیمنٹ کو مکمل اختیار ہے ، وہ چاہے تو پورا آئین ہی تبدیل کر دے ، اس کے لئے دستورساز اسمبلی ہونا بھی ضروری نہیں، ہر اسمبلی یہ کر سکتی ہے۔ جسٹس کے ایم صمدانی پاکستان کے مشہور جج اور ماہر قانون تھے۔ انہوں نے جنرل ضیاء کے دور میں بھٹوصاحب کو ضمانت دینے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا تھا۔ جسٹس صمدانی بڑے بااصول شخص تھے، انہوں نے جنرل ضیا کے پی سی او کا حلف بھی نہیں اٹھایا تھا ۔صمدانی صاحب سے نیازمندانہ تعلق تھا، بڑے مضبوط، بااصول مگر شفیق انسان تھے۔ ان سے ایک دو بار اس ایشو پر تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔ جسٹس صمدانی کے خیال میں عدالتوں کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ آئین میں بیسک سٹرکچر کا تعین کریں۔ وہ صرف آئین کی تعبیر وتشریح کر سکتی ہیں، کیا ترمیم کرنی ہے، کیا نہیں کرنی، یہ عدلیہ کا نہیں مقننہ کا کام ہے۔ خیر یہ تو طویل اور پیچیدہ قانونی بحثیں ہیں۔ میرا نکتہ یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم میں شامل چیزیں ایسی نہیں کہ انہیں بیسک سٹرکچر میں شامل کیا جائے ۔ بنیادی انسانی حقوق، پارلیمانی نظام،وفاقی طرز حکومت، اسلامی دفعات، عدلیہ کی آزادی وغیرہ کے معاملات کا اٹھارویں ترمیم سے کوئی تعلق نہیں۔اس تناظر میں پیپلزپارٹی اوربعض قوم پرست جماعتوں کا اٹھارویں ترمیم پر شدت پسندانہ نقطہ نظر رکھنا غلط اور نامناسب ہے۔ کسی سیاسی جماعت کو یہ کہنا زیب نہیں دیتا کہ ہم کسی کو اٹھارویں ترمیم کو ہاتھ نہیں لگانے دیں گے۔ یہ طرز گفتگوداعش جیسی شدت پسند تنظیموں کا ہے، سیاسی رہنما اس اسلوب میں بات نہیں کیا کرتے۔ اٹھارویں ترمیم منظور ہونے کے بعد کچھ اعتراضات پیدا ہوئے تھے۔ ہائر ایجوکیشن کے بے اثر ہوجانے اور نصاب کے حوالے سے سوالیہ نشان اٹھائے گئے تھے۔ اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تکنیکی ابہام بھی چلتے رہے۔ جیسے صحت، تعلیم جیسے محکمے صوبوں کے پاس چلے گئے، مگر ان کے حوالے سے عالمی اداروں سے مذاکرات وفاق کو کرنے پڑتے ہیں تو مسائل پیدا ہوئے۔وفاق کے محاصل پر بھی اثر پڑا۔ وفاق سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہر آفت اور مشکل میں صوبوں کی کھل کر مدد کرے گاجبکہ عوام الناس بھی براہ راست وزیراعظم کوحکمران اور جوابدہ سمجھتے ہوئے اس سے توقع، امید لگاتے ہیں۔ وفاق کے پاس اب اتنا زیادہ بچتا ہی نہیں کہ یہ توقعات پوری کر سکے۔ گیس وغیرہ کے ایشوز بھی بنے۔پچھلے برسوں میں سنجیدہ اقتصادی ماہرین بھی اس پر حیران ہوئے کہ جب انڈسٹری کو گیس کی ضرورت ہواور نہ ہونے سے اسے بند کرنا پڑے، تب سندھ میں گاڑیوں کو سی این جی کیوں فراہم کی جائے؟ جو انڈسٹری پنجاب میں واقع ہے، اسے گیس فراہم کر کے چلانے اور لاکھوں لوگوں کو روزگار اور کروڑوں ، اربوں ڈالر کی ایکسپورٹ کے بجائے سی این جی سٹیشنوں کے ذریعے وہ گیس پرائیویٹ گاڑیوں کو دی جائے۔اسی طرح بعض اور معاملات بھی ہیں۔ ہمارے خیال میں اٹھارویں ترمیم میں کسی بھی قسم کی تبدیلی لانے کے حوالے سے بات کی جا سکتی ہے۔ یہ شجر ممنوعہ یا مقدس گائے نہیں۔ اس پر کھلی بحث ہوسکتی ہے۔ سنجیدہ، معیاری بحث، جس میں کسی بھی قسم کے منفی کارڈ، زہریلے نعروں یا بلاوجہ کے جذباتی بیانیہ سے گریز کیا جائے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو البتہ دو تین نکات کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ خیال رکھا جائے کہ اٹھارویں ترمیم متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ بند کمروں میں تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی نے کئی ماہ تک غوروخوض کر کے اٹھارویں ترمیم کا مسودہ تیار کیا، جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ اس لئے اس ترمیم کے کچھ اجزا کو تبدیل کرنا مقصود ہے تو اسے بھی اسی سنجیدگی، متانت اور سلیقے سے کرنا چاہیے۔ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنے جو خاموشی سے بند کمروں میں اپنی نشستیں رکھے اوراتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اٹھارویں ترمیم سے بہت سے اہم محکمے اور اختیارات صوبوں کے پاس آگئے ۔ صحت، تعلیم ، زراعت سمیت بہت کچھ صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آگیا۔یہ وہ بات ہے جس کا طویل عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ مرکز کے اختیارات کم کئے جانے اور صوبائی اختیارات میں اضافہ ہمیشہ سے اپوزیشن کی سیاسی تحریکوں کا مطالبہ رہا ہے۔یہ درست ہے کہ ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کی کارکردگی ان کے حوالے سے زیادہ اچھی نہیں رہی، مگر اس طرح تو وفاقی حکومتوں نے اپنے محکموں کا حال بھی بگاڑا ہوا ہے ۔بیڈ گورننس کی بنیاد پر صوبائی معاملات مرکز کو نہیں مل سکتے کہ وہاں کون سی گڈ گورننس ہے؟ اس لئے جو تبدیلیاں کرنی ہیں، ان پر بھی اچھی طرح پہلے سوچ لیا جائے۔ صرف ضروری اور ناگزیر تبدیلی ہی تجویز ہو۔ یہ تاثر نہ ملے کہ صوبائی اختیارات سلب کئے جا رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ پھرسے مضبوط مرکز چاہتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی کے خواہاں حلقوں کو اپنا کیس مضبوط دلائل کے ساتھ سامنے رکھنا چاہیے۔ اس ترمیم کو نہ چھیڑنے کے خواہش مند حلقے بھی اپنا جوابی موقف دلائل کے ساتھ دیں۔ سندھ کارڈ، صوبائی منافرت، قوم پرستی کے روایتی ہتھکنڈوں اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ نعرے بازی سنجیدہ جواب یا حل نہیں۔ اس ایشو کو ہم ایک میچور، سمجھدار قوم کی طرح ڈیل کریں۔ ویسے تو ایک اور سوال بھی پوچھنا چاہیے کہ کورونا کی اس آفت کے دنوں میں جب کہ ملک بحران سے دوچار ہے، اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے یا بدلنے کا انوکھا آئیڈیا کیسے آیا؟ خاص کر جب کہ حکمران جماعت کو قومی اسمبلی میں بمشکل اکثریت حاصل ہے جبکہ سینٹ میں سادہ اکثر یت بھی نہیں۔