بانی پیپلز پارٹی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِحکومت کا ذکر کرتے ہوئے جب ان کی مطلق العنان پالیسیوں کا ذکر کرتا ہوں تو افسردگی اور افسوس غالب آجاتا ہے۔ آج بھی معتبر مورخین لکھتے اورکہتے ہیں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو جیسا سحر انگیز ، محب وطن ، جرات مند لیڈر پاکستان کو نہیں ملا … پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے اْن کی انتھک محنت، پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس، بھارت سے 93ہزار قیدیوں کی رہائی۔۔۔پھر پاکستان کی پہلی اسٹیل مل۔۔۔ اس سے بھی بڑھ کر مشرقی پاکستان پر بھارتی جارحیت اور سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک ہاری ہوئی پڑمردہ قوم میں جوش وولولہ پیدا کرنے ، ایسے کارنامے تھے جن کی بنیاد پر بھٹو صاحب برسوں نہیں دہائیاں حکومت کرتے۔ 50برس کی سیاست میں عمر ہی کیا ہوتی ہے۔"کشمیر کاز"کو انہوں نے عالمی فورمز پر جس طرح اٹھایایقین سے کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی سورماؤں کو انہوں نے ساری دنیا میں تنہا کردیاتھا۔اب اس کا دوش ان کی حد سے بڑھی ہوئی انانیت اور آمرانہ ذہنیت کوہی جائے گا۔جس سے ملک کے اندر اور باہر کے بدترین دشمنوں کو لیناہی تھا۔امریکی تاریخ کے طاقتور ترین وزیر خارجہ ہنری کسنجرکی بھٹو صاحب کو خود پاکستان کی سرزمین پر بدترین مثال بنانے کی دھمکی محض گیدڑ بھبکی نہیں تھی۔ ایک نہیں درجنوں کتابوں میں ، خود جنرل ضیاء الحق کے انٹیلیجنس افسران نے اپنی کتابوں میں پاکستان قومی اتحاد کوڈھیروں ڈھار ملنے والوں کاذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ مگر اپنے اقتدار کے پہلے ہی سال میں اپنے وفادار جیالوں کی جگہ روایتی نوابوں ، سرداروں ، خانوں اور چاپلوسوں کو گورنری، وزرائے اعلیٰ سمیت وزارتیں ،مشاورتیں دینے کی مجرمانہ ذمہ داری تو معذرت کے ساتھ قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کو ہی جائے گی۔سعید احمد خان، مسعود محمود، کوثرنیازی ، یوسف شیخ جیسوں کو نوازنا اورمعراج محمد خان، جے اے رحیم، مختار رانا، تالپور برادران ، جیسوں کو بد ترین مظالم کا نشانہ بنانا تو ذہین وفطین بھٹو کی بدقسمتی ہی کہی جائے گی۔جس نے بالآخرانہیں ایک عبرتناک انجام سے دوچارکیا۔18ویں ترمیم کی تاریخ میں جاتے ہوئے میں نے 1973ء کے آئین کے خالق کے ہاتھوں گزشتہ کالم میں آئین میں کی گئی اس تیسری اور چوتھی ترمیم کی طرف آیا تھا جس میں سیاسی کارکنوں سے بنیادی انسانی حقوق تو چھینے گئے ہیں۔۔۔ مگر عدالتوں سے بھی وہ اختیارات چھین لئے گئے جو ایوبی آمریت کے دور میں بھی سیاسی مخالفین اور عدالتوں کو حاصل تھے۔ 1973ء کے آئین میں متفقہ طورپر جو بنیادی انسانی وشہری حقوق رکھے گئے اْس میں جو تیسری ترمیم کی گئی اس کے تحت فروری1975ء میں ایک ایسی سفاکانہ تبدیلی کی گئی جس میں سیاسی کارکنوں کو ایک ماہ قید میں رکھنے کے دوران ہی عدالت میں پیش کرنے کی شق نکال کر اسے ایک سال میں تبدیل کردیا گیا۔ غورفرمائیے اس وقت بھٹو صاحب نے جن مخالفین کو گرفتارکیا ان میں ممتاز صحافی الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمان شامی،محمد صلاح الدین شامل تھے۔ یہ وہ دور تھا جب بھٹو صاحب اپنی مقبولیت کے عروج پر تھے۔یہ poorاس وقت کے نوجوان صحافی اپنی جماعتی وابستگی کے سبب جو کچھ لکھ رہے تھے اس سے کون سا ایسا طوفان برپا ہورہا تھا جس میں بھٹو صاحب کی حکومت کی بنیاد اکھڑ جاتی۔۔۔ مگر پہلے بھی لکھا کہ ان کے ارد گرد وہ خوشامدی ٹولہ ناک، کان،آنکھ بن چکا تھا جس نے ان سے چند نحیف ونزار سیاسی مخالفین کی زبانیں بند کرانے کے لئے آئین میں تیسری اورچوتھی ترمیم کروائی اور پھر اس سے بھی بڑھ کر نیپ، جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومت کے ساتھ نیشنل عوامی پارٹی کو ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے bannedکراکے،حیدرآباد سازش کیس کا مقدمہ ،آئین کی چوتھی ترمیم سپریم کورٹ کو اس بات کا اختیار دیا کہ وہ ایک ایسا اسپیشل ٹریبونل تشکیل دے جس کی سماعت جیل کے اندر ہو۔میری صحافتی زندگی کا آغاز تھا۔یہ بات میں سن 1976ء کے لگ بھگ کی کر رہاہوں۔۔۔ خود مجھے رپورٹنگ کے لئے اس عدالتی کارروائی کودیکھنے کا موقع ملا۔۔۔ یقین کیجئے،اور یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ شائد پی پی کے چیئرمین آصف علی زرداری اور نوجوان بلاول بھٹو زرداری کے علم میں نہ ہو کہ جوان دنوں نیب کی عدالتوں میں جیالوں سے بھری پجیروں کے قافلے میں آتے ہیں۔کہ اس سازش کیس کی سماعت چار پھاٹکوں سے گزر کر ایک بیرک میں اس کیس کی سماعت ہوا کرتی تھی۔یعنی سیاسی قیدی تو خیر جیل میں تھے ہی مگر ججز حضرات سمیت صفائی اور استغاثہ کے وکلاء کرام بھی گھنٹوں جیل کے اندر حاضری لازمی ہوتی۔۔۔ یقیناً برسوں بعد جب حیدرآباد سازش کیس کی تفصیل سامنے آئے تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی کہ نیپ کی ملٹنٹ قیادت کے باضابطہ کابل، دہلی، ماسکو سے رابطے تھے۔ نیپ کے اہم کردار صوفی جمعہ خان نے" فریب تمام "کے نام سے شائع ہونے والی کتاب میں جو اس وقت کی پشتون ، بلوچ کے بارے میں لکھا ہے اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ خطاب اپنی جگہ خود ایک استغاثہ ہے۔ حیدر آباد سازش کیس کامقدمہ اگر کھلی عدالت میں چلتا اور اس کی تفصیلات مخفی نہ رکھی جاتیں تو یقینی طور پر اس بنیاد پر اس وقت کی آزاد سپریم کورٹ قرار واقعی سزا دیتی۔ مگر جب عدالت ہی جیل میں لگے تو سارا مقدمہ ہی حکومت مخالف ہوجاتا ہے جیسا کہ بعد میں ہوا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کے خاتمے کے بعد نیپ کی بلوچ، پشتون قیادت باعزت رہا اور خود تیسری دنیا کاعظیم لیڈر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو ایک ایسے کیس میں سزائے موت کا مستحق جسے آج بھی Judicial murderکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آئین میں کی گئی پانچویں ترمیم کا مقصد عدلیہ کو ایگزیکٹو کرنے سے متعلق تھا۔ چھٹی ترمیم کا تعلق بھی عدلیہ یعنی سپریم کورٹ اور ہائیکورٹوں سے ہے۔ پہلے بھی اعتراف کرچکا ہوں کہ آئین ، قانون اور اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات ایک ایسا مضمون ہیں کہ جس پرسنجیدہ اور جامع گفتگوکرنے کاحق قانونی ماہرین کو ہی ہے۔ یہ جو 18ویں ترمیم کے حوالے سے میں کالم پر کالم کھینچ رہا ہوں تو اس کا سبب اپنے محترم حامد خان کی گرانمایہ کتابand constitutional history of Pakistan political The ہے جس کے اوراق الٹ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے سویلین اور فوجی حکمرانوں نے 73ء کے متفقہ آئین کے ساتھ بازاری زبان میں کتنا بڑا کھلواڑ کیا۔ مگر وہ جو کہا جاتا ہے نا کہ تاریخ کا دھارا اپنے رخ میں بدلنے والے بعد میں پھر اس کا ہی شکار ہوتے ہیں۔جس کی پہلی مثال 73کے آئین کے خلاف بانی پاکستان پیپلز پارٹی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی ہے۔ بھٹو صاحب نے اپنے دور میں جو ترامیم کیں جن میں چلیں دو کو چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ بہرحال متفقہ طور پر تھیں۔۔۔(جاری )