آج 6مئی 2020ء کے روزنامہ 92 نیوز میں شائع ہونے والی تین خبروں کے حوالے سے بات کروں گا ۔ لاہور کے رپورٹر رانا عظیم کی فائل کی گئی ایک خبر کے مطابق حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے متحد ہونے کے ڈر کے پیش نظر 18 ویں ترمیم کے خلاف کام سست کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کا شوشہ کیوں چھوڑا گیا ۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 2018ء کے الیکشن میں اپنے ووٹروں سے 18 ویں ترمیم کے خاتمے کا وعدہ نہیں کیا تھا ۔ الیکشن کے دوران تحریک انصاف نے صوبے کا وعدہ کیا تھا ، یہاں تک ہوا کہ جب جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کیا گیا تو سو دن میں صوبہ بنانے کا تحریری معاہدہ بھی ہوا ۔ تحریک انصاف کو اٹھارہویں ترمیم جیسے ایشوز کو چھیڑنے کی بجائے اپنے پارٹی منشور کے مطابق صوبے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیںکہ کسی بھی جماعت کا منشور نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے روزنامہ 92 نیوز کی ایک اور خبر کے مطابق حکومت پنجاب نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم کرنے کیلئے اقدامات شروع کر دیئے ۔ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی صورتحال کے باث جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کا معاملہ التوا میں چلا گیا تھا ، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کا آج اجلاس طلب کر لیا ۔خبر کے مطابق اجلاس میں سیکرٹری کالونیز ، سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی ، ڈائریکٹر لیگل اور دیگر افسران شریک ہونگے۔ اجلاس میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کیلئے آنے والی لاگت کا تعین کیا جائے گا ۔ اجلاس میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی جگہ کا تعین بھی کیا جائے گا ۔ حکومت جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ کی بات بھی کر رہی ہے ۔سب سول سیکرٹریٹ کے حوالے سے ہم بار بار کہتے آ رہے ہیں کہ سیکرٹریٹ کسی بھی لحاظ سے صوبے کا متبادل نہیں لیکن یہ بھی دیکھئے کہ صوبے کے بارے میں اقدامات کرنے کی بجائے سب سول سیکرٹریٹ کالولی پاپ دیا گیا ، اور کہا گیا کہ بہت جلد ملتان میں سول سیکرٹریٹ کام شروع کر دے گا ۔ 2019-20ء کے صوبائی مالیاتی بجٹ میں تین ارب روپے رکھے گئے مگر تادم تحریر ایک بھی روپیہ خرچ نہیں ہوا۔ نئے بجٹ کے آنے میں صرف ایک مہینہ رہ گیا ہے تو کب کام شروع ہو گا اور کب سول سیکرٹریٹ بنے گا یہ بات بذات خود مذاق کے سوا کچھ نہیں ۔ سب سول سیکرٹریٹ کے نام پر ایک اور غلط کام کیا گیا کہ وسیب کے لوگوں کو جان بوجھ کر الجھن میں ڈالا گیا کہ پہلے لوگ فیصلہ کریں کہ سب سول سیکرٹریٹ بہاولپور میں ہونا چاہئے یا لودھراں یا ملتان میں ۔ انگریز دور میں نفاق اور تفریق پیدا کرنے کے حکومتی اقدامات سمجھ میں آتے تھے ، لڑاؤ اور حکومت کرو کا فارمولا بھی سمجھ آتا تھا کہ انگریز سامراج بدیسی حکمران اور ہماری سرزمین پر ناجائز قابض تھا ، مگر انگریز کے چلے جانے کے بعد اس طرح کے فارمولے تکلیف کا باعث ہیں ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اتفاق اور اتحاد کیلئے کام کرنا چاہئے ، جہاں تک صوبے کے دارالحکومت کی بات ہے تو تاریخی ، ثقافتی ، جغرافیائی لحاظ سے ملتان میرٹ پر آتا ہے اور یہ وسیب کے عین درمیان میں ہے لیکن صوبہ مخالف جیسے وسیب دشمنوں کی غلط باتوں کو سرکاری سطح پر شہ دینے کی کوشش کی جس کا مقصد صوبائی سیکرٹریٹ بنانا نہیں بلکہ سیکرٹریٹ اور صوبے کے مسئلے کو التوا میں ڈالنا تھا۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کو سیکرٹریٹ کی بجائے صوبہ دینا چاہئے اور وسیب کی تمدنی تہذیب، تاریخ اور جغرافیہ کا ہر صورت احترام کرنا چاہئے۔ گیلانی دور حکومت میں آئین ساز ادارے سینیٹ نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس کیا ، ایک لحاظ سے صوبے کے مسئلے کو آئینی تحفظ حاصل ہو چکا ہے تحریک انصاف کی حکومت سینیٹ سے منظور کئے گئے بل کے کام کو آگے بڑھائے ۔یہ عمل ملک و قوم کیلئے بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی مقبولیت کا باعث بھی بنے گا ۔ روزنامہ 92 نیوز کی ایک اور خبر کے مطابق پنجاب حکومت نے لاک ڈاؤن کے باعث مالی مشکلات کے شکار فنکاروں کی مالی معاونت کا فیصلہ کیا ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے مستحق فنکاروں کیلئے مالی امداد کے پیکیج کی منظوری دے دی ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ہدایت پر صوبائی محکمہ اطلاعات و ثقافت مستحق فنکاروں کیلئے مالی امداد کا پیکیج تیار کر لیا ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا ہے کہ مستحق فنکاروں کو 15 سے 20 ہزار روپے تک مالی امداد دیں گے ۔ پنجاب حکومت 3 ہزار فنکاروں کی مالی معاونت کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ مالی امداد کوئی احسان نہیں بلکہ فنکاروں کا حق ہے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے آرٹسٹ سپورٹ فنڈز کا اجراء قابل قدر ہے ، اس میں وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر مبارکباد کے مستحق ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ اس سپورٹ فنڈز میں جس شخصیت کا کردار سب سے زیادہ ہے ‘ ان کا نام راجہ جہانگیر ہے اور وہ سیکرٹری اطلاعات و ثقافت کے عہدے پر فائز ہیں ۔ گزشتہ دور حکومت میں بھی انہوں نے فنکاروں کے اسی طرح مدد کرائی تھی اور غریب فنکار آج بھی ان کو دعائیں دیتے ہیں ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عید سر پر آ گئی ہے ، کورونا وائرس سے سب لوگ متاثر ہوئے ہیں مگر دیہاڑی دار پس کر رہ گئے ہیں ، فنکاروں کا شمار بھی دیہاڑی داروں میں ہوتا ہے ، کورونا لاک ڈاؤن کے دوران صوبے کی آرٹس کونسلوں کی معرفت فنکاروں کی امداد کیلئے درخواستیں مانگی گئیں ، جن فنکاروں کو علم ہو سکا ، انہوں نے درخواستیں بھیجیں ، البتہ بہت سے فنکار ایسے ہیں جن کو علم ہی نہیں ہو سکا ۔ بہتر ہوگا کہ دوسری قسط کے طور پر رہ جانے والے مستحق فنکاروں کی بھی امداد کی جائے ۔ فنکار کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں ، یہ ٹھیک ہے کہ دوسرے ممالک میں سفارت خانے حکومتوں کی ضرورت ہوتے ہیں اور ان پر ہر ماہ اربوں روپے کے اخراجات بھی سسٹم کا ایک حصہ ہیں مگر کسی بھی ملک کیلئے موثر اور اصل ثقافتی سفارت کاری ہوتی ہے اور یہ کام فنکار ہی سر انجام دے سکتے ہیں ۔