معزز قارئین!۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ،تقریباً2 سال اور ایک ماہ تک ( 31 دسمبر 2016 ء تا 17 جنوری 2019ء ) چیف جسٹس آف پاکستان رہے اور 18 جنوری کو با عزّت "Retired" (سبکدوش ) بھی ہوگئے لیکن میرے خیال میں وہ ابھی تک "Tired" ( تھکے ہارے ) نہیں ہیں۔ میاں ثاقب نثار صاحب نے پاکستان کے عوام کے بنیادی حقوق کے لئے ایسے ایسے کام کئے جو حکمرانوں کے فرائض میں شامل ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے اُنہیں "A Living Legend" کہا جاسکتا ہے ۔ چیف جسٹس کی حیثیت سے میاں ثاقب نثار کے نامزد کردہ ( موجودہ چیف جسٹس ) جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گُلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل پانچ رُکنی لارجر بنچ نے 28 جولائی کو آئین کی دفعہ ’’62-F-1 ‘‘ کے تحت صادق ؔاورامینؔ ثابت نہ ہونے پر وزیراعظم نواز شریف کوتا حیات نا اہل قرار دِیا ‘‘ تو مَیں نے اپنے 30 جولائی 2017ء کے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور پنج تن پاک ؑکا بھی ، جن کی شفقت سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچ جج صاحبان ’’عدالتی انقلاب ‘‘ کے بانِیان ؔبن گئے ہیں۔ یقین کیا جانا چاہیے کہ اب ’’عدالتی انقلاب ‘‘ جاری رہے گا ‘‘۔ نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ تقریباً 11 ماہ بعد 20 دسمبر2019ء کو ریٹائر ہو جائیں گے ۔ بقول شخصے ۔’’ وقت بہت کم ہے اور مقابلہ سخت‘‘۔معزز قارئین!۔ 28 جولائی 2017ء کے بعد ’’عدالتی انقلاب‘‘ تو جاری ہے ، اب ’’قائدِ انقلاب‘‘ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں ۔کسی اُستاد شاعر نے کسی دوسرے شاعر سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … اپنے اندازؔ میں اپنے دِل کی کہو! مِیر ؔکا شعر تو، مِیرؔ کا شعر ہے؟ 17 جنوری کو ( حلف اُٹھانے سے پہلے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ) نے میاں ثاقب نثار کے اعزاز میں منعقدہ الوداعی "Full Court Reference"سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’مَیں از خُود نوٹس (Suo Motu) کا اختیار بہت کم استعمال کروں گا لیکن مقدمات میں غیر ضروری تاخیر اور جعلی گواہوں کے خلاف "Dams" ضرور بنائوں گا‘‘۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے صدرِ مملکت عارف اُلرحمن علوی کو تجویز پیش کی کہ ’’ وہ ریاستی اداروں (پارلیمانی، عدالتی، انتظامی ، فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دیگر اداروں) کا اجلاس طلب کریں جس میں کُھلے ذہن سے مباحثہ کِیا جائے کہ ’’ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ نے ماضی میں کہاں کہاں غلطیاں کی ہیں ؟ بلا جھجک انتظامی معاملات میں فوج ، خفیہ اداروں کے کردار پر بھی بات کرنا چاہیے !‘‘۔ چیف جسٹس کھوسہ صاحب علم و فضل ہیں اور اپنے اکثر فیصلوں میں وہ انگریزی اور اردو ادب کے حوالے بھی دیتے رہے ہیں لیکن مَیں انتہائی احترام کے ساتھ عرض کروں گا کہ ’’ آپ کی طرف سے صدرِ مملکت کو اِس طرح کی تجویز پیش کرنا بھی توایک طرح کا ’’ از خود نوٹس‘‘ (Suo Motu) ہی ہے؟ اور ہاں!۔ آپ کا یہ بیان واقعی پاکستانی قوم کی توجہ کا مستحق ہے کہ ’’ میری رگوں میں بلوچ خون دوڑ رہا ہے مَیں آخری دم تک لڑوں گا ‘‘۔ معزز قارئین!۔ واقعی بلوچ قوم کا شمار بھی دوسری بہادر اقوام میں ہوتا ہے۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ (لوہانہ گوت کے ) راجپوت ؔتھے ۔ وہ متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے آزاد ملک پاکستان ؔ کے بانی تھے۔ سبھی مسلمان مولا علی ؑ کی اولاد ’’سادات‘‘ کی بہت عزت کرتے ہیں لیکن صدر جنرل پرویز مشرف بھی تو سیّد کہلاتے تھے اور صدر ممنون حسین بھی؟۔ صدر محمد ایوب خان کے دَور میں مغربی پاکستان اسمبلی کے ایک رُکن شاعر باقی بلوچؔ بہت نامور ہُوئے۔ اُن کی محبوبہ کو، اُس کے والدین نے لندن پہنچا دِیا تو، اُن کا ایک شعر بہت مشہور ہُوا کہ … سات سمندر پار سہی وہ، لیکن باقی دِلؔ کا حال! اِس ساحل سے اُس ساحل تک ، سب پہنچایا موجوں نے! ’’بوڑھے بلوچ ؔکی نصیحت بیٹے کو ‘‘ کے عنوان سے ’’مصّور پاکستان ‘‘علاّمہ اقبالؒ نے اپنی نظم میں کہا کہ … ہو تیرے بیاں باں کی ، ہوا تجھ کو گوارا! اِس دشت سے بہتر ہے ، نہ دِلّی نہ بخارا! …O… غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دَو میں! پہناتی ہے درویش کو تاج ِ سردارا ! …O… افراد کے ہاتھوں میں ہے ،اقوام کی تقدیر! ہر فرد ہے مِلّت کے مقدر کا ستارا! مَیں حیران ہُوں کہ، زرداری قبیلہ کے بلوچؔ سابق صدر پاکستان آصف ؔ علی زرداری نے اپنے بیٹے کے نام ’’ بوڑھے بلوچ‘‘ کی اِس نصیحت پر غور کیوں نہیں کِیا؟۔ محترم چیف جسٹس صاحب اگرچہ ’’سسی پنوں ‘‘ سندھ کی لوک کہانی ہے اور ’’ سسی اور پنوں‘‘ دونوں کاتعلق بلوچ قوم سے تھا۔وہ دونوں میاں بیوی بھی بن گئے تھے لیکن، پنوں ؔکے بھائی پنوںؔ کو نشہ پلا کر اغوا کر کے لے گئے تھے ۔ سسی ؔ، اپنے پنوں ؔکے لئے صحرا میں بھٹکتی رہی اور مر گئی اور واپسی پر پنوںؔ بھی آ کر سسی ؔ کی قبر پر گر کر دفن ہوگیا۔ "Wikipidia" کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پنجابؔ کے ضلع ڈیرہ غازیخان میں پیدا ہُوئے اور پنجاب یونیورسٹی سے کئی ڈگریاں حاصل کیں۔ "Queens` College, Cambridge" اور 'The Lincoln`s inn, London" سے بیرسٹر بن کر جج اور پھر چیف جسٹس بن گئے۔ محترم چیف جسٹس صاحب!۔ آپ نے یقینا پنجابی ادب بھی پڑھا ہوگا ؟ ۔ ایک لوک گیت میں سسیؔ اپنے پنوںؔ کو یہ پیغام بھجواتی ہے کہ … کدے کدے پُننّاں ،موڑ مہاراں! وے موڑ مہاراں، آ گھر باراں! لال ملاویں، ناں ترساویں! وَے مَیں، لکھ لکھ شکر گزاراں! کدے کدے پُننّاں ،موڑ مہاراں! …O… ماپیاں میریاں، داج رنگایا! وے جوبن، لُٹ لیا یاراں! زیور گہنے نُوں، اگّ لاواں! وے پُھوک سُٹّاں، گھر باراں! کدے کدے پُننّاں، موڑ مہاراں! معزز قارئین!۔ مَیں ذاتی طور پر بلوچ قوم سے بہت محبت کرتا ہُوں۔ اِس لئے کہ ’’قیام پاکستان کے وقت قصور اور فیروز پور کے درمیان "Baloch Regiment"کے افسروں اور جوانوں نے مسلمان ریاست مالیر کوٹلہ ؔ کی اُس ٹرین میں سوار اُن دو اڑھائی سو مسافروں کو سِکھوں کے حملے سے بچایا تھا ۔ جس میں میرا خاندان بھی شامل تھا۔ پھر بہت عرصہ تک مَیں پاک فوج کے ہر افسر اور جوان کو ’’ بلوچ رجمنٹ‘‘ ہی کا افسر اور جوان سمجھتا رہا۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران مَیں نے پاک فوج کی شان میں دو ملّی ترانے لکھے ۔ ایک ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا اور دوسرا محکمہ تعلقات عامہ مغربی پاکستان کی شائع کردہ ضخیم کتاب میں شائع ہُوا۔ اور ہاں!۔ چیف جسٹس صاحب!۔ آپ نے ہیر رانجھا کی داستان ، سیّد وارث شاہ کی تصنیف ہیرؔ کا ضرور مطالعہ کِیا ہوگا؟۔ ’’پنجاب کا رانجھا ‘‘ کتنا اچھا انسان تھا ، اُس نے ہیر کی نند ، سہتی ؔ کو اُس کے محبوب مُراد بلوچؔ کے ساتھ بھگا دِیا تھا لیکن، اِس موقع پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ، بلوچ نواب محمد اسلم رئیسانی کے اِس عقیدے کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ جب ، اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ ڈگری ، ڈگری ہوتی ہے ، اصلی ہو یا نقلی‘‘ ۔ اِس پر میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے کہا تھا کہ … خُدا کے برگزیدہ بندے ، ناز و نعم کے پالے! بڑے خُوش بخت ہیں ، یہ لوگ جعلی ڈگریوں والے! …O… کہ استحقاق حاصل ہے، اِنہیں قانون سازی کا! کوئی ظلِ الٰہی ، چاہے جب، انگوٹھا لگوا لے! …O… پَنپتے ہیں ، سیاست میں ، کلاسیکی گھرانوں کے! بھتیجے ، بھانجے ، پِسر، بہنوئی اور سالے! محترم چیف جسٹس صاحب!۔ میری دُعاہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ آپ کو ’’ قائد اِنقلاب‘‘ کی حیثیت سے ’’ عدالتی انقلاب‘‘ کو مکمل کرنے کی توفیق دے !۔ اُس کے بعد تو، صِرف مَیں نہیں بلکہ 60 فی صد مفلوک اُلحال ہر پاکستانی آپ کو پیغام بھجوائے گا کہ "Live in my Heart and Pay No Rent"۔