پتھر دلوں پر اس کا کیا اثر ہو گا ۔یاد رکھیے!جو فیصلے وقت پر نہیں کیے جاتے،تو وقت ان کا فیصلہ خود کرتا ہے اور عموماً وقت کا فیصلہ بے رحم ہوتا ہے ۔ہر شخص اپنی زندگی میں کامیابی کا خواہشمند ہوتا ہے مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں،جن کا ستارہ عروج پر،کام پر عبور،افراد کی ذمہ داریوں کا علم ،معاملہ فہمی،بالغ نظری،بے لوثی اور غیر جانب داری اُن کا وصف۔نزاعی معاملات کو خوش اسلوبی سے سلجھانے کا ہنر انھیں گھٹی میں ملا ہوتا ہے۔بیورو کریسی میں ایسے افراد کا قحط۔ ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے سیکرٹری اوقاف و چیف ایڈمنسٹریٹرکا منصب 31جنوری 2023ء کو سنبھالا۔اوقاف کا انتظامی‘ تعمیراتی‘ تقریباتی و مالیاتی دائرہ اور علمی ‘ دینی و فکری زاویہ ازحد متنوع اور وسعت پذیر ہے‘جس کے سبب سیکرٹری اوقاف کا ہمہ وقت متحرک و مستعد اور سرگرم عمل رہنا ایک فطری امر۔ محکمہ اوقاف کی بدقسمتی ہے کہ 1960ء سے لیکر اب تک ،یعنی 63 برسوں میں 68 سیکرٹری اوقاف تعینات ہوئے ہیںمگر محکمے کو مالی بحران پر قابو پانے اور تذبذب و مایوسی سے نکالنے کے لئے جامع ایکشن پلان ترتیب نہ دیا جا سکا‘موسمی تبدیلی کی طرح سیکرٹری بھی آتے اور جاتے رہے ۔یہی وجہ تھی کہ مالی محصولات میں بہتری کے لئے جامع حکمت عملی ترتیب دی جا سکی‘نہ ہی کمرشل پالیسی،کیش بکس کی موثر مانیٹرنگ ‘ فیلڈ سٹاف کے لئے ماہانہ اور سالانہ اہداف زر کا واضح تعین‘ ماہانہ بنیادوں پر تحسین و تادیب‘ کرنٹ کرایہ جات کی بروقت وصولی کا کوئی جامع نظام بن سکا۔کیونکہ سیکرٹر ی صاحب جب تک محکمے سے واقف ہوتے تو انھیں نئی منزل کی راہ دکھا دی جاتی ۔ نکتے کی بات یہ ہے کہ بلندی،رفعت اور پاکیزگی انہی کو ملتی ہے،جو اپنی جبلتوں اورآرزوں سے برسر جنگ رہتے اور اپنی ناکامیوں پر غور کرتے ہیں ۔کیا کھویا کیا پایا ؟ جب تک اس پر غور نہیں کیا جائے گا تب تک آپ اہداف کو حاصل نہیں کر پاتے ۔ موجودہ سیکرٹری اوقاف و چیف ایڈمنسٹریٹر کی ساری سروس اسی محکمے میں گزری ،لہذا وہ محکمے کی ایک ایک انچ سے واقف ہیں ۔انھوں نے چارج سنبھالتے ہی پہلے دن فیلڈنگ کھڑی کی ۔ اہداف مقرر کیے ۔ اچھے ،باصلاحیت اور بے داغ افرادکو ذمہ داریاں سونپیں۔ انھوں نے اہداف مقرر کیے،جن میں قدیمی بقایا جات کی وصولی‘ نیلام شدہ زرعی رقبہ جات کی تفصیلات‘ نئے کرایہ جات کا نفاذ‘ وقف پراپرٹیز کے انتقالات‘ وصولی زر تاوان‘ بسلسلہ عدم نیلام‘ وقف پراپرٹیز کا سروے‘ رجسٹریشن پرائیویٹ وقف ہائے کا ''WTC'' پورٹل پر اندراج‘ تفصیل مقدمات‘ عملہ مساجد کی کارکردگی‘ زونل /ضلعی خطباء کی کشادگی کیش بکسز اور نیلام اراضیات کے موقع پر حاضری اور ایمپلائز کے لئے ترقی اور خصوصی الائونسز کا اجرائ‘ بطور خاص شامل ہیں۔ برسہا برس سے323 ایکڑ سے زائد کمرشل رقبہ محکمانہ لیڈر شپ کی توجہ کا منتظر تھا۔مگر کسی نے توجہ ہی نہ کی ۔کچھ افراد تو ایسے تھے جو دن کو سوتے اور رات کو جاگتے تھے لہذامحکمے نے خاک ترقی کرنی تھی۔یہی وجہ تھی کہ کمرشل زمین پر مافیاکا قبضہ تھا۔دربار حضرت غازی پیرؒ پیر شور کوٹ سے ملحق 4کنال رقبہ برائے پٹرول پمپ،جامع مسجد تاجدار انبیاء سے ملحقہ کمرشل اراضی 15مرلے اور 20 عدد دوکانات کی خالی جگہ۔صوفیہ آباد فیروز پور روڈ لاہور میں‘دربار حضرت شاہ نورؒ کا وقف رقبہ تعدادی 19.5کنال ۔جامع مسجد باہر والی سے ملحقہ 17کنال رقبہ واقع ملتان روڈ ہنجر وال۔ اس وقت اوقاف کی 74964 ایکڑ اراضی میں 29907ایکڑ 6کنال 11مرلے زمین قابل استعمال ہے۔اسے مزیدسود مند بنانے کے لئے محکمانہ قوائد کی روشنی میں کارپوریٹ ایگرو فارمنگ سے استفادہ کرنے کا فیصلہ بھی خوش آئند ۔اربوں روپے مالیت کی جگہ پر قابضین کی رالیں ٹپک رہیں۔مگر اب انھیں مصرف میں لانے کا فیصلہ ہو چکا ۔اس ضمن میں وقف پراپرٹی ایڈمنسٹریشن رولز 2002ء کی شق 5اور سپریم کورٹ کے فیصلے بمطابق 07مارچ 2019ء بھی موجود ہیں۔مگر کسی نے ان جانب توجہ ہی نہیں دی۔ جس طرح گاڑی ڈرائیور چلاتاہے،پچھلی نشست پر بیٹھا ہوا آدمی نہیں ۔خواہ وہ کیسا ہی خوگر اور طاق ہو ۔ایسے ہی سیکرٹر ی و چیف ایڈمنسٹریٹرمحکمہ چلاتا ہے، نچلا طبقہ نہیں ۔بے شک وہ لاکھ ایماندار ہو۔ ایک کام جس کی جانب کسی نے توجہ ہی نہیں دی ،گزشتہ تین برسوں سے مختلف محکمانہ سرمایہ کاری کے ثمرات جو کہ التواء کا شکار تھے ان کو فوراً محکمہ کے اکائونٹ میں جمع کروانے کے لئے متعلقہ اداروں سے رابطے کرکے ان کی واپسی کو ممکن بنا گیا ہے ۔وہ ملازمین اوقاف پنجاب کے جنرل پراویڈنٹ فنڈ (GPF)اور پنشن فنڈ کی رقم تھی۔ محکمے نے 7,84,24,500/روپے سال 2009ء اور 87,00,00,000/-روپے کی سال 2010ء میں عرصہ دس سال کے لئے ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس کے ذریعے انویسٹ کی گئی تھی۔مجموعی طور پر مبلغ 94,84,24,500/- روپے کی دس سالہ سرمایہ کاری کے محاذ محکمہ کو مقررہ مدت کے بعد مبلغ 2,03,91,12,675/- روپے کا منافع ہوا۔یوں محکمہ کی ٹوٹل قابل وصول رقم مبلغ دو ارب‘ اٹھانویں کروڑ‘ پچھتر لاکھ ‘ سینتیس ہزار‘ یک صد‘ پچھتر روپیہ ہو گئی۔یہ رقم 2020ء سے ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز کی طرف سے محکمہ کو ادا ہونا تھی۔اتنی بڑی سرمایہ کاری کے ثمرات گزشتہ تین سال سے بے اعتنائی کا شکار تھے اس معاملے کو سیکرٹری اوقاف نے از خود ''Take up''کیا اور وفاقی حکومت کے معاون خصوصی برائے ریونیو طارق محمود پاشا سے خصوصی میٹنگ اور دیگر ضروری اور موثر اقدامات بروئے کار لا کر‘ سرمایہ کاری کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم اور اس کے ثمرات کو محکمانہ اکائونٹ میں واپس جمع کروانے کے عمل کو نتیجہ خیز بنایا۔یقینی طور پر تین ارب روپے کی محکمے میں واپسی سے چالیس فیصد الائونس،بروقت پنشن اور تنخواہوں ادائیگی ہو سکے گی۔ اس کام کے لیے بھی بے حد محنتی، منتظم، متجسس، یکسو اور صلح پسندایڈمنسٹریٹر کی ضرورت تھی ، جو محکمے کو میسر ہی نہ تھا ۔ یاد رکھیں!سستی نہ تو تاریخ معاف کرتی ہے اور نہ ہی افراد۔اگر اب بھی سستی کی گئی تو کیا عجب کہ آئندہ نسل کو شارع شاہ چراغ پر سجدہ سہو بھی کرنا پڑے ۔