پٹرول بم سے بھی بڑا واقعہ یہ ہے کہ صدر مملکت سے ہونے والی گفتگو کون ریکارڈ کر رہا ہے؟ اور یہ ریکارڈ شدہ بات چیت بیک وقت سارے نظام ابلاغ تک کس نے پہنچائی؟ کس کے ایماء پر بنیادی مسئلے اور اصل خطرے کو نظرانداز کرکے ایک غیر اہم اور فروعی مسئلہ موضوع بحث لایا گیا‘ کسی نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ یہ بم پھینکا کس نے؟ عمران خاں کی روائت اور ہدایات کے برعکس جلائو‘ گھیرائو کا فائدہ کس کو ہو سکتا ہے؟ 25مئی کے احتجاج کے دوران لاہور سے نکلنے والوں قافلوں پر جو پرامن بھی تھے جمہوری اصولوں کے مطابق بھی‘ ان قافلوں پر پولیس اور پولیس کی حفاظت میں بہت سے غنڈہ عناصر حملہ آور ہوئے۔کچھ زخمی ہوئے‘ عورتوں کو گھسیٹ کے گاڑیوں سے نکالا گیا‘ کاروں کے شیشے توڑ دیے گئے ‘ بعض افراد کو پل سے نیچے پھینک کر قتل کیا گیا لیکن یہ اکا دوکا قتل اور ظلم و جور کافی نہیں سمجھا گیا۔کیوں؟ تاکہ الیکشن ملتوی ہو سکیں وہ کون سا ستم ہے جو عمران حکومت کے خلاف سازش کے بعد تحریک انصاف کے لیڈروں کے خلاف روا نہیں رکھا گیا‘ چادر چار دیواری کا تقدس مجروح ہوا‘ لوگوں کے گھروں میں زبردستی گھس کر انہیں زدو کوب کیا گیا‘ ناموس اور عزت پر حملے کئے گئے‘ گرفتار شدگان اعظم سواتی‘ شہباز گل کے ساتھ جو بیت گئی وہ ایسی ہے کہ زبان سے کہی جائے نہ قلم اسے لکھ پائے لیکن وہ بھی باعزت شہریوں کے جسم و جان پر گزر گئی‘ واقعات کی تھوڑی بہت خبریں نشر کرنے والے ذرائع ابلاغ نشانہ بنے‘ ان کو گرفتار کر کے نامعلوم عقوبت خانوں میں ننگا کر کے مارا پیٹا۔انہوں نے ایسے حالات کا کسی حد تک مقابلہ کیا لیکن جب ان کی ہمت اور طاقت سے حالات باہر ہو گئے تو وہ ملک چھوڑ کر بھاگ نکلے‘ ارشد شریف‘ جس کے پاس غداروں‘ اٹھائی گیروں‘ قاتلوں اور قوم کو بے دریغ لوٹ کھانے والوں کے بعض ناقابل تردید ثبوت تھے‘ ملکوں ملکوں اس کا پیچھا کر کے جان بچا کر بھاگتے ہوئے کو کینیا میں جا کر قتل کر دیا گیا‘ قتل کا سراغ لگانے والے بھی وہی جو قتل کے ذمہ دار ہیں ورثا جو کچھ جانتے تھے ان کو نظر انداز کر دیا گیا، ان کی مرضی کا پرچہ کٹا نہ تفتیش ہوئی‘ اسی پر بس نہیں، خود عمران خاں کو سرعام قتل کرنے کی کوشش ہوئی‘ قاتلانہ حملے میں عمران خاں سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے، ایک بے گناہ شہید ہو گیا۔اس حملے سے بہت دن پہلے عمران خاں پورے منصوبے کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے رکھ چکے تھے،کئی دن سے کٹھ پتلی جسے حکومت کا نام دیا گیا ہے‘ اس منصوبے کو چھپانے کے لئے دھول اڑا رہے تھے‘ زخمی عمران خاں جو پاکستان کے مقبول ترین لیڈر اور قومی تاریخ کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم ہیں‘ ان کی شکایت کے مطابق ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی‘ عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود شکایت کنندہ کی بجائے ملزموں کی طرف سے ایف آئی آر کاٹ دی گئی۔یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے یہ سب کچھ جو ہو چکا ہے اور وہ سب جو ہونے والا ہے کیا آپ کا خیال ہے یہ شہباز شریف‘ رانا ثناء اللہ اور محسن نقوی اینڈ کمپنی کے بس کی بات ہے تو یقینا آپ غلطی پر ہیں‘جس طرح افغانستان میں ملا عمر کی حکومت حامد کرزئی نہیں ہٹا سکتے تھے، اسی طرح عمران خاں کی حکومت ان مجہول العقل لوگوں کے بس میں نہیں تھا‘ جو اس منصوبے کا خالق تھا‘ وہ ملک چھوڑ کے جا چکا بقول عمران خاں کے وہ دم دبا کے یو اے ای میں بیٹھا ہے‘ لیکن وہ سب کچھ ختم نہیں ہوا جو اس نے شروع کیا تھا‘ اس کی باقیات نے منصوبے پر عملدرآمد جاری رکھا ہوا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ تیرہ(13) عدد سیاسی خچروں پر سوار کیل کانٹے سے لیس ہو کر پاکستان پر اپنے قوت و اقتدار قائم رکھنے اور قوم کو غلامی پر رضا مند کرنے کے لئے حملہ آور ہے‘ عمران خاں نے قوم کو آزادی اور آزاد روی کی راہ سمجھائی ہے‘ قوم نے اسے اپنا راہنما مان لیا‘ دھن کا پکا‘ ارادوں میں سچا عمران خاں ستم گر لٹیروں کی راہ میں حائل ہے‘ پوری قوم بطور خاص نوجوان مرد و خواتین قطار در قطار اس کے آگے‘ پیچھے‘ دائیں ‘ بائیں صف آرا ہیں مقابلہ جاری عنقریب فیصلہ ہوا چاہتا ہے: پندار کے خوگر کو ناکام بھی دیکھو گے آغاز سے واقف ہو انجام بھی دیکھو گے؟ 1990ء میں خان عبدالولی خاں نے کہا تھا، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری معرکہ پنجاب میں لڑا جائے گا پنجاب کو جب اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا پتہ چل جائے گا اور وہ مقابلے پر تیار ہونگے تب عوام جیت جائیں گے او ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ولی خاں کی پیش گوئی کے مطابق نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے، پنجاب نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کو سمجھ لیاہے نہ صرف کھیل کو جان لیا ہے بلکہ اس نے کھیل کا پانسہ بھی پلٹ دیا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں مشرقی پاکستان (مرحوم) سیاسی اعتبار سے زیادہ بالغ نظر اور قوت فیصلہ میں بہت بہتر تھا بنگالی جس نتیجے پر پچاس سال پہلے پہنچ چکے تھے، اگر پنجابی اس وقت سمجھ گئے ہوتے تو پاکستان آج بھی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دو حصوں پر مشتملاور کہیں زیادہ مستحکم‘ طاقتور اور خوش حال ہوتا‘ تاہم دیر تک سوتے رہنے کے نتانئج بھگتنا ہی ہوتے ہیں وہ ہم بھگت چکے۔80کی دہائی سے 2022ء تک اسٹیبلشمنٹ کا نام ہی کافی تھا، اسے کبھی بے نقاب ہو کر سامنے آنے کی ضرورت نہ تھی محض یہ تاثر ہی کافی تھا کہ اسٹیبلشمنٹ فلاں پارٹی کے ساتھ ہے چنانچہ اس کی حریف پارٹی کو حکومت نہیں ملے گی لوگوں کو خبر کی ضرورت نہ تھی محض اس افواہ سے بھی کام چل جاتا تھا کم از کم پندرہ فیصد ووٹ اسی افواہ پر پھسل کر اسٹیبلشمنٹ کے چرنوں میں جھان ہو جاتے لیکن گزشتہ برس رمضان المبارک میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا‘10اپریل 2022ء اسٹیبلشمنٹ کی عمران خاں کے خلاف ایک بڑی واردات کے چند گھنٹوں کے بعد پورے پاکستان میں عموماً اور پنجاب میں خصوصاً شدید ردعمل دیکھنے میں آیا دنیا بھر میں موجود پاکستانی بھی اس میں شریک ہوئے تین کروڑ سے زیادہ پاکستانیوں نے نماز تراویح کے بعد سڑکوں چوراہوں پر احتجاج کرتے ہوئے عمران خاں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا‘ وہ دن اور آج کا دن 80فیصد پاکستانی عوام ڈٹ کے عمران خاں کے ساتھ کھڑے ہیں‘ 37حلقوں میں انتخابات ہوئے دھاندلی‘ دھونس‘الیکشن کمیشن کی غیر مشروط وفاداری کے باوجود 30سیٹیں عمران خاں کی تحریک انصاف نے جیت لیں حساب کر کے دیکھ لیں یہ 80فیصد سے کچھ زیادہ ہی ہیں، لاشیں گرانے کے خواہش مند امن کے سامنے ہار گئے‘ وہ پسپا ہو رہے، امن اور آئین کی جیت سامنے نظر آ رہی ہے‘ بس تھوڑی دیر اور صبر کا دامن تھام کر ثابت قدم رہیے‘ آخری فیصلہ پاکستانی عوام کریں گے خوش قسمتی سے اعلیٰ عدالتی عہدیدار آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔مبارک ہو۔