ہمارے ملک پر قدرت کی نوازشات اور اتنی زیادہ مہربانیاں ہیں کہ جن کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے ویسے تو پوری دنیا میں بسنے والے ہم انسان اللہ تعالیٰ کی کونسی کونسی نعمتوں کا شکرادا کر سکتے ہیں؟خصوصاً اس پاک ذات کی ہم مسلمانوں پر یہ مہربانی اور نعمت سب سے بڑی ہے کہ ہمیں اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اْمت میں پیدا فرمایا اور اپنے آخری نبی اقدسﷺ کے ذریعے اسلام جیسے خوب صورت مذہب کے ساتھ وابستہ کر دیا اور پھر ہم پاکستانیوں پر ایک اور مہربانی کر دی کہ ہمیں ایک خوبصورت خطہ عطا کر دیا جس میں دنیا کی تمام نعمتیں ہیں لیکن ہم نا شکرے ہیں ویسے تو نا شکری انسان کی سر شت میں شامل ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں بھی واضح کر دیا ہے کہ انسان بڑا ہی نا شکرا ہے۔ لیکن اس سر زمین پر بہت کم بندے ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکرادا کرتے رہتے ہیں۔ آج کل وطن عزیز میں موسم بہار کا جوبن ہے جیسے انسان کی زندگی کے 18 برس سے لے کر 30 برس تک جوانی کے خوب صورت ایام ہوا کرتے ہیں یہ انسانی عمر کے بہار کے دن ہوتے ہیں لیکن یہ اتنی جلدی گزر جاتے ہیں کہ انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ بڑھاپا اْس کے دروازے پر دستک دینا شروع کر دیتا ہے بعینہ بہار کے دن بھی بہت مختصر لیکن دل لبھانے والے دن ہوتے ہیں آج کل ہر درخت اور ہر پودے پر بہار کی وجہ سے خوب صورتی اور خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ لاہور جو باغوں اور پھولوں کا شہر بے مثال ہوا کرتا تھا لیکن ہماری انسانی ہوس نے اِس خوب صورت شہر سے یہ خوب صورتی بھی چھین لی ہے آبادی اور مسلسل آبادی اور پھر زیادہ سے زیادہ کمانے کے چکر میں ہماری زرعی زمینوں کو جس بے دردی کے ساتھ رہائشی سکیموں میں تبدیل کیا جا رہا ہے یہ سب سے بڑا المیہ ہے لاہور اب لاہور نہیں رہا۔ اندرون شہر گاڑیوں کے بے پناہ رش اور دھواں نے اِس شہر بے مثال کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور باہر رہائشی سکیموں کے ذریعے زراعت اور درختوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے دریائے راوی کے پار کبھی بہار کے د نوں میں زندگی اپنے پورے خوب صورت جوبن پر ہوا کرتی تھیں کامران کی بارہ دری کے ساتھ رستم زماں گاماں پہلوان کی آرام گاہ اور اکھاڑہ ہوا کرتا تھا گاماں پہلوان اندرون لاہور داتا صاحب کے ساتھ موہنی روڈ کے رہنے والے تھے لیکن لیاقت علی خان کے زمانہ میں اْنہیں حکومت پاکستان نے دریائے راوی کے ساتھ کامران کی بارہ دری کے ساتھ اکھاڑے کے لیے کچھ رقبہ الاٹ کیا تھا۔ جہاں پر گاماں پہلوان اپنی زندگی کے آخری ایام تک فن پہلوانی کو فروغ دیتے رہے لیکن افسوس کہ اب تو دریائے راوی میں پورے لاہور کا سیوریج زدہ پانی ڈالا جا رہا ہے۔ راوی جو لاہور کا دل ہوا کرتا تھا لیکن ہماری نا اہلی اور غفلت نے اْسے بھی مار ڈالا پورے لاہور میں اِس وقت کہیں بھی سکون کی جگہ نہیں رہی اور پھر موجودہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے روٹ بنا کر لاہور کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے نہ جانے حکمرانوں کو اپنے آپ کو تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے یہ عارضی سہارے کیوں لینے پڑتے ہیں۔ کہ جس سے خوب صورت شہر اِن کی اَنا اور ضد کا بری طرح سے شکار ہو جاتے ہیں اب لاہور کا بھی یہی حشر ہو چکا ہے۔ چوبرجی چوک سے لے کر لکشمی چوک تک اِن دنوں جو موسم بہار کی رونقیں ہوا کرتی تھیں وہ اب کہیں بھی نظر نہیں آتیں۔ یاد رہے کہ موسم بہار کی ساری رعنائیاں درختوں اور زرعی زمینوں سے ہوتی ہیں لیکن ہمارے نا اہل حکمرانوں نے اِس طرف کبھی توجہ ہی نہیں دی کہ درخت ہمارا کتنا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اور اِن کی کس طرح سے حفاظت کی جاتی ہے۔ ملتان میں گذشتہ تین سال قبل ڈی ایچ اے رہائشی سکیم کے دوران جس طرح سے ہزاروں آم کے درختوں کو کاٹا گیا ’’یہ اعزاز‘‘ بھی ہمارے حصے میں آیا کہ پوری دنیا میں جہاں پر باغات ہوا کرتے ہیں تو اْن کی بڑی حفاظت کی جاتی ہے لیکن ہم چونکہ ہوس پرست اور ون کاغذی نوٹوں کے سہارے زندہ رہنے والی قوم ہیں۔ اس لیے ہمیں باغات نہیں بلکہ کاغذی نوٹوں کی ضرورت ہے۔ اس لیے ملتان میں اِس رہائشی سکیم کو شروع کرنے سے قبل آم کے ہزاروں درختوں کو بے دردی سے کاٹ کر رکھ دیا گیا۔ لیکن میں حیران ہوں کہ ملتان جو بڑے بڑے سیاسی اور اقتدار میں رہنے والے لوگوں کا گھر ہے۔ کسی نے بھی اِن درختوں کے قتل عام پر آواز نہ اْٹھائی اور مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی اب بھی وقت ہے کہ حکومت زرعی زمینوں اور باغات والی جگہوں پر رہائشی سکمیں بنانے پر پابندی عائد کر دے۔ شاید اِس سے ہمارے خطے کے لوگوں کی کچھ زندگی بڑھ جائے گی وگرنہ جس تیزی سے ہمارے خطے میں گرمیوں کے دنوں میں ہم سب کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے ابھی سے دیکھ لیں کے بہار کے موسم کتنی جلدی گرمیوں میں تبدیل ہو گیا ہے۔وگرنہ بہار کا موسم دو ماہ تک جاری رہتا اور اب صرف پندرہ دنوں کے بعد اور بہار رخصت ہو چکی ہے جس کے ذمہ دار صرف اور صرف ہمارے حکمران اور لالچی مافیا ہے جو رہائشی سکمیوں کی خاطر درختوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔