جمہوری نظام میںسیاسی حکومت ریاست کا انجن تو ہو سکتی ہے خود ریاست نہیں۔ریاست کے اجزا ء ترتیبی میں بنیادی حیثیت اداروں کی ہوتی ہے جو آئین کی طے شدہ حدود میں ریاستی جسم کو فعال اور توانا رکھنے کے لئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اس لحاظ سے حکومت اور ریاستی اداروں کا کردار کلیدی ہوتا ہے ،حتمی نہیں۔ حکومت کرنے والی پارٹی کی قیادت یہاں تک کہ اداروں کی قیادت کی مدت متعین ہوتی ہے جبکہ ریاست اور ریاستی ادارے دائمی ہوتے ہیں۔ جرمن فلاسفر نے کہا تھا کہ ریاست کی حفاظت اس کی فوج کرتی ہے جبکہ فوج کی پشت پر عوام کی طاقت ہوتی ہے تاریخ گواہ ہے کہ ریاستیں بیرونی دشمنوں کے حملوں سے تباہ تو ہوئیں لیکن ختم یا تحلیل نہیں۔ریاست کی تحلیل کا عمل ہمیشہ ہی اندرونی شکست وریخت سے شروع ہوتا ہے اور دشمن اس کو منطقی انجام تک پہنچاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نومولود پاکستانی ریاست کو سب سے پہلے ایران نے تسلیم کیا جبکہ ہمسایہ ملک افغانستان پاکستان کے وجود کو ماننے سے ہی انکاری تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم کی دور اندیش نگاہوں کو پاکستان اور افغانستان کے مستقبل کے تعلقات کا بخوبی ادراک تھا یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے مغربی سرحد پر قبائلی علاقوں کے عوام کے روایتی نظام کے حق تو تسلیم کرتے ہوئے ریاست پاکستان سے وفاداری اور تحفظ کی ضمانت لے کر مغربی سرحد کو خطروں سے محفوظ کر دیا۔پاکستان نے روز اول سے ہی افغانستان کے ساتھ خیر سگالی اور پرامن ہمسائیگی کے تعلقات کے لئے کوششیں کیں مگر یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ افغانستان سے پاکستان کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کم ہی نصیب ہوئے۔رہی سہی کسر چانکیہ کے فلسفہ ’’ہمسائے کا ہمسایہ بہترین دوست پر عمل کرتے ہوئے بھارت نے پوری کردی۔ بھارت نے ناصرف مشرقی محاذ ہمیشہ گرم رکھابلکہ پاکستان اور افواج پاکستان کی توجہ ہٹانے کے لئے مغربی سرحد پر بھی چالیں چلتا رہا ہے۔ پختونستان اٹک سے کابل تک کے ماضی میں بھارتی شوشے چھوڑے گئے لیکن وہ اپنے مذموم عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکا تاہم مغربی سرحد سے شورشیں ضرور اٹھتی رہیں۔ کبھی بلوچستان میں مینگل ،مری اور بگٹی قبائل کو بغاوتوں پر اکسایا تو کبھی کے پی کے میںبے بنیاد اور مکروہ نعروں کو ہوا دے کر عدم استحکام کی سازشیں رچائی گئیں۔ماضی میں بھی پاکستان کے خلاف ہر حملے کے ڈانڈے بھارت سے ملتے رہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہی نہیں بلکہ بدقسمتی سے پاکستان کے دل پنجاب تک سرائیت کرتا محسوس ہورہا ہے جس کی ایک بنیادی وجہ سوویت افغان جنگ کے دوران پورے پاکستان میں افغان مہاجرین کے روپ میں چند شرپسند بھارتی ایجنٹ ہیں جن کی شناخت ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ 9مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل کی آڑ میں جو کچھ ہوا اسے صرف عمران خان کی محبت میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور عوام کا غصے میں ردعمل سمجھ کر نظر انداز کرنا ممکن نہیں ۔ 9مئی کے سانحہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ یہ درست ہے کہ 9مئی کو ملک بھر میں ہونے والے احتجاج میں عام پاکستانی بھی شامل تھے مگر عام پاکستان کے جذبات کو انگیخت دے کر ریاستی اداروں اور املاک پر حملوں پر اکسانے والوں کے عزائم ہرگز سیاسی نہ تھے ۔عام پاکستانیوںاور تحریک انصاف کے کارکنوں میں شامل ہونے والے ملک دشمنوں کی شناخت اور ان کے عزائم کو خاک میں ملانا جتنا ضروری ہے اتنا ہی کٹھن اور حساس بھی۔ ففتھ جنریشن وار کا تو بنیادی ہتھیار ہی یہ ہوتا ہے کہ دشمن کی صفوں میں گھس کر ریاست کو اس حد تک کمزور کر دیا جائے تاکہ اس کمزور حصے پر وار نتیجہ خیز ہو سکے۔ 9مئی کے واقعات کے بعد یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دشمن پاکستانیوں کو اپنی ریاست اور ریاستی اداروں کے مقابل کھڑا کرنا چاہتا ہے ۔ دشمن کا یہ ایجنڈا نیا نہیں۔ ماضی میں بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کو ریاست کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کے شواہد موجود ہیں بلوچستان کے بعد یہ ہتھیار کے پی کے میں استعمال کرنے کی کوشش گزشتہ 10برس سے جاری ہے۔ اب پاکستان کے دشمنوں نے کے پی کے اور بلوچستان کے بعد پنجاب اور سندھ میں پہلا وار کیا ہے پاکستان کے دشمن منصوبہ سازوں کو یقین ہے کہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے اور اداروں پر حملوں کے جواب میں ریاست ردعمل دے گی اور ملک بھر میں مظاہرین کی پکڑ دھکڑ ہو گی۔اصل گناہ گاروں کی اکثریت تو شاید محفوظ پناہ گاہوں تک پہنچا دی گئی ہو، پکڑے وہی جائیں گے جو استعمال ہوئے یا جن کا ارادہ اداروں کی تضحیک نہ تھا مگر وہ عمران خان کیلئے گھروں سے نکلے۔ دشمن چاہتا ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے ان محب الوطن’’ نا سمجھوں ‘‘کو نشان عبرت بنائیں کیونکہ ایسا کرنے سے ہنگاموں میں اگر ہزار گمراہ شریک تھے تو ضرورت سے زیادہ ریاستی سخت سے ہزار خاندانوں کی ریاست سے محبت بیزاری میں نہ بھی بدلے تب بھی کمزور ضرور ہو گی ۔ یہی وہ چنگاڑی ہے جو دشمن پنجاب اور سندھ کے عوام کی پاکستان کی محبت کے جذبات میں رکھنا چاہتا ہے اگر دشمن کا منصوبہ کامیاب ہوا تو سینکڑوں کے بعد ہزاروں اور پھر لاکھوں کو ریاست کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرے گا۔ دشمن جانتا ہے کہ ایسا کرنے سے ہی افواج پاکستان کی طاقت کم اور ریاست کی شکست ریخت کا عمل شروع ہو گا۔ یقینا ریاست بالخصوص افواج پاکستان دشمن کے اس ایجنڈے سے بخوبی آگاہ ہیں اور ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے بھی دانشمند حکمت عملی بھی بنا چکے ہوں گے۔ فوج نے ماضی میں بھی بھٹکے ہوں کو امن کے جانب مائل کرنے کے لئے بلوچستان اور کے پی کے میں کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عام معافی کا متعدد بار اعلان کیا۔ یقیناً اب بھی اس بارے میں سوچ بچار جاری ہوگا اصل امتحان تو سیاسی قیادت کا ہے جو اپنی انا کی تسکین کے لئے ملک کو آگ میں جھونکنے پر تیار ہے۔ بدقسمتی سے ملک کو جس سیاسی معاشی بحران کا سامنا ہے اس کے مقابلے میں عسکری قیادت سیاستدانوں کی معاونت تو کر سکتی ہے مسئلہ حل نہیں کر سکتی سوال پھر یہی اٹھتا ہے کہ کیا سیاسی قیادت اپنے اور پارٹی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک و قوم کے لئے سیاسی استحکام کیلئے قربانی دینے کو تیار ہے؟؟ کیونکہ شبنم شکیل نے کہا ہے نا! یہ خیرو شر کی جنگ نہیں ہے یہاں تو بس ٹکرائو ہو گیا ہے انا کا انا کے ساتھ