وزیر اعظم عمران خان کی لاڑکانہ میں آمد سندھ کی سیاست میں بڑی تبدیلی کی ابتدا ہو سکتی تھی مگر بقول مرزا غالب: ’’تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پُرزے دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا‘‘ عمران خان کا کوئی چاہنے والا تماشا نہ ہو پانے کا یہ عذر پیش کر سکتا ہے کہ ملکی فضاؤں میں کورونا کا دیو منڈلا رہا ہے اور سندھ کی دھرتی پر اس دیو کا سایہ ذرا زیادہ دیکھا یا دکھایا جا رہا ہے۔ اس لیے عمران خان کی آمد سندھ کی سیاسی سمندر میں ایسی لہریں نہیں اٹھا پائی جو تحریک انصاف والے چاہتے تھے۔وزیر اعظم عمران خان رسمی طور پر لاڑکانہ میں احساس پروگرام کے کاؤنٹر کا افتتاح کرنے آئے تھے مگر اصل میں وہ سیف اللہ ابڑو نامی اس شخص کے آنگن کو رونق افروز کرنے گئے تھے جو کل تک پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا انویسٹر تھا۔ سیف اللہ ابڑو کے نام سے پاکستان کے سیاسی حلقے آگاہ ہوں، یہ ضرروری نہیں لیکن سندھ اور خاص طور پر لاڑکانہ میں اس شخص کے لیے یہ کہا جا سکتاکہ ’’انہیں کون نہیں جانتا‘‘ یہ حضرت بہت بڑے سرکاری کانٹریکٹر ہیں۔ ان کے پاس دولت کی کمی نہیں۔ وہ بڑے تعلقات رکھتے ہیں۔ سیف اللہ ابڑو گذشتہ انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کے معاشی مددگار تھے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ فریال تالپور کے بیحد قریب تھے مگر نہ معلوم ایسے کون سے اسباب پیدا ہوئے جن کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی اے ٹی ایم سمجھے جانے والے نہ صرف پیپلز پارٹی سے الگ ہوئے بلکہ تحریک انصاف میں شامل ہوگئے اور تحریک انصاف کے ٹکٹ پر وہ پیپلز پارٹی کے کور کمیٹی کے اہم رکن سہیل انور سیال کے خلاف انتخابات میں مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوئے۔سیف اللہ ابڑو انتخابات میں سہیل انور سیال سے تو نہ جیت پائے مگر وہ عمران خان کا دل ضرور جیت گئے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو عمران خان اس شخص کی دعوت کس طرح قبول کرتے اور اپنی آمد سے اس شخص کو پاکستان کی اہم شخصیت بننے نہ دیتے۔’’ سیاست میں کسی کے آنے سے بہت سارے چلے جاتے ہیں‘‘ یہ فارمولہ پورے پاکستان میں کارآمد ہے۔ سندھ میں تحریک انصاف کے سلسلے میں یہ ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان جب لاڑکانہ آئے تب ان کے آس پاس وہ لوگ ہونے چاہئیں تھے جن سے مل کر عمران خان نے نہ صرف لاڑکانہ میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تھی بلکہ کپتان اور مذکورہ ٹیم نے آپس میں عہد کیا تھا کہ لاڑکانہ کو تحریک انصاف کا قلعہ بنائیں گے۔ وہ پرانے وفادار اس بار عمران خان کے گرد نظر نہ آئے۔ اس وجہ سے عمران خان خوش نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اس بار عمران کے ساتھ نہ شفقت انڑ تھا اور نہ اللہ بخش جو تحریک انصاف کے مرکزی جوائنٹ سیکریٹری ہیں۔ اس بار تو اہلیان لاڑکانہ کو وہ شاہد رند بھی نظر نہ آئے جن کو اس بات پر فخر تھا کہ تحریک انصاف کا پرچم لاڑکانہ میں اپنے گھر پر لہرانے والے وہ شخص تھے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ عمران خان کا وزیر اعظم کی حیثیت میں لاڑکانہ کی سرزمین پر جوش و جذبے سے زبردست استقبال کرنے کے لیے ممتاز بھٹو اور ان کے فرزند امیر بخش بھٹو موجود ہوتے۔ مگر وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ اور دعوت میں موجود صحافی اور شہر کے معززین ایک دوسرے سے اشاروں میں پوچھ رہے تھے کہ ’’وہ کیوں نہیں آئے؟‘‘ حالانکہ وہ سب جانتے تھے کہ وہ اس لیے نہیں آئے کیوں کہ وہ ناراض تھے۔ اس سلسلے میں یہ سوال بہت زیادہ اہم ہے کہ آخر وہ ناراض کیوں تھے؟ کیا وہ اس لیے ناراض تھے کہ لاڑکانہ میں وزیر اعظم کی حیثیت سے آنے کے وقت عمران خان نے پرانے جانثاروں کے بجائے نئے چہرے کو اہمیت دی؟ یہ سبب بھی نہ صرف ہوسکتا تھا بلکہ یہ سبب بھی تھا۔ مگر سندھ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے سینئر رہنماؤں کو اصل شکایت یہ ہے کہ اسلام آباد کا اقتدار ان سے بہت دور ہے اور سندھ میں اپنی حکومت قائم کرنے کے سلسلے میں وزیر اعظم نے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ سندھ میں رہنے والے تحریک انصاف کے رہنما اب صرف یہ طعنے سننے کے لیے رہ گئے ہیں کہ کیا آپ حکومت میں ہیں؟ اقتدار کی گاڑی نہ آئی اور تحریک انصاف کے سندھ والے حلقوں میں مایوسی کی کیفیت بڑھتی رہی۔ وہ مایوسی جو جی ڈی اے کے حصے میں آئی اور ان سے زیادہ مذکورہ مایوسی متحدہ کو متاثر کرتی گئی مگر اس مایوسی کا اصل شکار وہ تحریک انصاف والے ہیں جنہوں نے اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی اور کراچی میں ایم کیوایم سے ٹکر لیکر تحریک انصاف کی بنیاد ڈالی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ سندھ میں بہت جلد ان کی حکومت قائم ہوگی مگر یہ خواب شرمندہ تعبیر کب بنے گا؟ یہ سوال اس بار نہ صرف لاڑکانہ کی فضاؤں بلکہ کراچی کی ہواؤں میں بھی لہراتا رہا۔ اس بار کراچی میں سندھی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے وزیر اعظم عمران خان سے خصوصی وقت لیا اور وزیر اعظم نے انہیں وقت تودیا مگر اس سوال کا جواب نہیں دیا جو سندھ میں گورنر راج کے سلسلے میں پوچھا گیا تھا۔ وزیر اعظم نے 18 ویں ترمیم کے حوالے سے یہ تو ضرور کہا کہ اس ترمیم کی وجہ سے چیف منسٹرز کو آمروں جیسے اختیارات حاصل ہوئے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے سندھ حکومت پر یہ بھی تنقید کی کہ وہ مشترکہ مفادات کی میٹنگ میں کچھ اور موقف رکھتے ہیں اور یہاں آکر میڈیا میں کچھ اور کہتے ہیں۔ اس بار وزیر اعظم کی سندھ حکومت کی ناراضگی بہت واضح تھی۔ اس ناراضگی میں پیپلز پارٹی والوں کو ایک طرح کی تنبیہ بھی تھی اور انہیں ایک اشارہ بھی تھا کہ اگر انہوں نے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے خلاف سندھ حکومت کو مورچہ بنا کر لڑنا بند نہیں کیا تو پھر وہ قدم ناگزیر بن جائے گا جس قدم کا پیپلز پارٹی کو پہلے دن سے خوف اور جس قدم کا تحریک انصاف اور ان کی حمایت کرنیوالوں کو روز اول سے انتظار ہے۔ اس بار وزیر اعظم اس قدم اٹھانے کا اشارہ دے گئے ہیں۔ وہ اشارہ جس کے لیے فارسی میں کہا جاتا ہے کہ ’’عاقلاں را اشارہ کافی است‘‘