امریکہ تنہا ڈومور نہیں کہتا‘ اس سے پہلے ویلڈن بھی کہتا ہے۔ یعنی پورا جملہ یوں ہوتا ہے کہ ویلڈن۔ ڈومور۔ یہ الگ بات ہے کہ ویلڈن اور ڈومور کے درمیان ایک رخنہ آ جائے جیسا کہ تازہ ترین ویلڈن گزشتہ روز فرمایا‘ ڈومور ارشاد فرمانے کی نوبت چند روز بعد دورہ امریکہ کے موقع پر آئے گی،تازہ ویلڈن بہت تاریخی ہے۔ صدر ٹرمپ نے بکلام خود‘ بدھان خود ویلڈن کہا ہے اور فرمایا ہے کہ دس سال سے جس دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ کی تلاش تھی۔ وہ مکمل ہوئی دو سال کا دبائو رنگ لایا اور حافظ سعید کو پکڑ لیا گیا۔ حافظ سعید پہلے بھی پکڑے جاتے رہے ہیں لیکن حفاظتی نظر بندی کی حد تک۔ امریکہ ناراض ہوتا تھا۔ اس حراست کو ماننے سے انکار کر دیتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ نظر بندی ہماری نظر بندی کی کوشش ہے۔ اصل میں کچھ نہیں ہے۔ اس بار پکا کام ہوا ہے۔ پہلے دہشت گردی کا مقدمہ بنا‘پھر پکڑا۔ اس بار کوئی جھول جھال کا جال نہیں ہے۔ ٹرمپ حضور کا یہ کہنا البتہ ٹھیک نہیں کہ دس سال سے تلاش جاری تھی۔ کہاں کی تلاش‘ کیسی تلاش‘ حافظ سعید سب کی نظروں کے سامنے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ پہلے حکمران عاقبت نااندیش‘ نافہم تھے۔ حکم سنتے تھے‘ تعمیل میں ایں وآں اور اگرچہ مگرچہ کرتے تھے۔ چنانچہ سزا بھی پائی۔ آنے والے عاقبت سے اچھی طرح اندیشی رکھتے ہیں۔ یعنی اندیشہ آشنا ہیں۔ اچھے اطاعت گزار ہیں‘ سخن فہم ہیںاور سودو زیاں کا فرق جانتے ہیں۔ جانتے ہیں کس بات پر شاباش لینی ہے۔ کس بات پر نہیں۔ ٹرمپ نے فرمایا دو سال سے دبائو ڈال رہے تھے۔ اس میں سے تیرہ چودہ مہینے تو نافرمانوں کی نافرمانی کے نکال دیجیے۔ گویا کل دبائو گیارہ ماہ تھا جو رنگ لایا۔اور یہ گیارہ ماہ سخن نافہمی کے نہیں تھے۔ تیاری اور ماحول سازی کے تھے۔ ٭٭٭٭٭ امن بہترین ہے‘ اس کا بدل نہیں۔ ڈیڑھ ارب انسانوں کا فائدہ امن میں ہے اور یہ سچائی لکھنے میں اب بظاہر کوئی اندیشہ نہیں۔ اندیشوں کے دن کم ازکم اس بات میں گزر گئے۔ دونوں ملکوں میں جھگڑے کی کوئی وجہ نہیں رہی۔ پھرکاہے کا جھگڑا۔ کشمیر ایک رکاوٹ ضرور رہا تھا۔ سمجھدارانہ حقیقت پسندی نے اسے دور کر دیا بہتر ہے باہمی دوستی تعلقات آمدورفت ‘ تجارت شروع کریں‘ اسے بڑھائیں‘ سب کا بھلا ہو۔ اسی بھلے میں مستقبل کا بھلا چھپا ہے۔ اللہ برکت دے۔ ٭٭٭٭٭ کوئی شہزادہ تھا(اور شہزادہ بالقوہ بادشاہ ہوتا ہے) ایک رات کسی رئیس کے گھر مہمان ہوا۔ ریشمی ‘ مخملی بستر پر ساری رات نیند نہ آئی۔ بہت بے چینی رہی۔ رئیس نے سراغ لگانے کی کوشش کی کہ کیا کمی رہ گئی۔پتہ چلا کہ گدّے کے نیچے مرغی کا ایک پر کہیں سے آکے پڑا رہ گیا تھا‘ اس کی ماورائی’’رڑک‘‘ نے سونے نہ دیا۔ جی ہاں‘ نازک مزاج شاہاں ایسے ہی ہوا کرتے ہیں لیکن تازہ خبر شہ والا کی نہیں۔ مصاحب شاہ کی ہے اور مصاحب ایسی شان و نزاکت والا ہے تو شہ والا حضور کی نزاکت اور اٹھلاہٹ کے کیا کہنے، بس سوچتے رہیے۔ خبر یہ ہے کہ مصاحب حضور کے آنے کی اطلاع ایئر پورٹ والوں کو نہیں تھی۔ وہ اچانک آئے‘ وی وی آئی پی لائونج سے برآمد ہوئے اور سوئے طیارہ جانے کے لئے گاڑی لانے کا حکم دیا۔ پیشگی علم نہیں تھا اس لئے ایئرکنڈیشنڈ گاڑی کا انتظام نہ ہو سکا۔ مصاحب حضور اتنے بھڑک اٹھے کہ ملازموں کا تبادلہ گلگت کر دیا اور تبادلے سے پہلے فرمایا‘ تمہاری ہڈیاں توڑ دوں گا۔ ہڈیوں کا نشان بھی نہ ملے گا۔ باڈی تمہارے گھر کے باہر پھینکوا دوں گا۔ اس مقصد کے لئے خصوصی فورس بنائوں گا۔ غصہ برحق تھا۔ پورے ایک منٹ کا سفر بغیر اے سی خدا کی پناہ! اس فورس کے بعد معرکہ ہڈی شکن برپا ہو گا۔ فہرست ہڈیات غالباً ابھی سے بن گئی ہو گی۔ خدا عزائم بلند میں کامیابی عطا فرمائے۔ ہر چند کہ دعا کی چنداں ضرورت نہیں۔ کوئی رکاوٹ اپنا وجود نہیں رکھتی‘ دعا کو زحمت دینے کی حاجت بھی کیا ہے۔ ان سطورو کا مقصد مصاحب حضور کے عزائم پر تنقید نہیں‘ محض یہ بتانا ہے کہ نازک مزاج شاہاں کی تفسیر یوں بھی ہوتی ہے۔ یہ تو مصاحب ہیں شہ والا حضور کی نزاکت پر تو ساری قوم قربان۔ سنا ہے بندی خانے میں بندیوں کو 48,48گھنٹے کھانا بھی نہیں دیا جاتا۔ ریکوڈک کیس کے فیصلے پر ایک حکومتی ہمدرد بہت پریشان تھے۔ فرمایا۔ چھ ارب ڈالر حکومت کیسے دے گی۔ صرف یہ نہیں اور بھی کئی تھے جن کو پریشان دیکھا۔ حالانکہ پریشانی کی کوئی بات ہی نہیں۔ یہ کوئی مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ حکومت اب تک دس بارہ ارب ٹیکس لوگوں پر لگا چکی ہے(بجلی‘ گیس سمیت اشیا پر ہزاروں قسم کے ٹیکس‘ پھر بجٹ میں سات ارب 32کروڑ کے ٹیکس ) اس کے لئے مزید چھ ارب کا ٹیکس لگانا کون سا مشکل ہے۔ بائیں ہاتھ کی انگلی کا کھیل‘ اس سے زیادہ نہیں۔ یہ تو اسے پتہ چل ہی گیا کہ جتنے چاہو پیسے چھینو۔ کسی میں دم مارنے کی جرات نہیں۔ ٭٭٭٭٭