ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے 92نیوز کی سپیشل ٹرانسمیشن میں افغانستان کی صورتحال اور پاکستان میں سکیورٹی سے متعلق پائے جانے والے خدشات کے پیش نظر کئے گئے اقدامات سے آگاہ کیا ہے‘ میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ پاک فوج نے افغان سرحد پر تمام غیر قانونی گزرگاہوں کو سیل کر کے نوٹیفائی کراسنگ پوائنٹس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے ممتاز تجزیہ کاروں کے پینل کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام 90فیصد مکمل ہو چکا ہے‘ سینکڑوں حفاظتی پوسٹیں قائم کر دی گئی ہیں۔ کراسنگ پوائنٹس پر بائیو میٹرک سسٹم نصب ہو چکا ہے جس سے آنے جانے والوںکی شناخت آسان ہو رہی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے متعلق بات کرتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی باقیات دوبارہ فعال ہونے کا خدشہ ہے۔را اور این ڈی ایس افغانستان میں ایسے گروپوں کی حمایت کر رہی ہیں جو دہشت گرد ہیں۔ پاکستان کی سکیورٹی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاک فوج خطے کے بدلتے حالات میں درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہے‘ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا تعلق افغان صورتحال سے ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا خطے پر اثرات کے حوالے سے ایک اہم واقعہ ہے۔ امریکہ نائن الیون کے بعد دنیا کے 30ممالک کی فوج لے کر افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ امریکی جنگ کے ابتدائی اہداف طالبان کو اقتدار سے محروم کرنا اور اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنا تھا۔ جونہی اتحادی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں طالبان مخالف جنگجو اس کی مدد کو آ گئے۔ پاکستان پر دبائو ڈال کر امریکہ نے فضائی اور زمینی راہداری حاصل کی۔ اسی دبائو کو بعدازاں انٹیلی جنس معلومات کے حصول کی خاطر استعمال کیا گیا۔ امریکی فوج نے اس دوران افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا۔ ان گرفتار افراد کو قلعہ جنگی جیل میں کچھ عرصہ رکھ کر اجتماعی طور پر قتل کر دیا گیا یا پھر انہیں گوانتاناموبے کے حراستی مرکز بھیج دیا گیا جہاں قبل ازیں عراق سے گرفتار حریت پسندوں کو بھی رکھا گیا تھا۔ امریکی اہلکار ان گرفتار عسکریت پسندوں پر پیشاب کرتے‘ ان کو خونخوار کتوں کے سامنے پھینک دیتے اور ان پر تشدد کے نئے نئے طریقے آزمائے جاتے۔اس عرصے میں طالبان نے اپنی مزاحمتی حکمت عملی تبدیل کر لی۔ دوسری طرف ملا عمر اور اسامہ بن لادن روپوش ہو گئے۔ ملا عمر بعدازاں روپوشی کی حالت میں بیمار رہ کر انتقال کر گئے جبکہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کے قریب امریکی خفیہ آپریشن میں مارے گئے۔ اصولی طور پر اسامہ بن لادن کی موت کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مقاصد پورے ہو چکے تھے۔لازم تھا کہ امریکہ اس وقت افغانستان میں پرامن انتقال اقتدار کا نظام وضع کرتا اور پھر کچھ عرصہ اس نظام کو کام کرنے کا موقع دے کر رخصت ہو جاتا۔ امریکہ نے اس دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے خطے میں ایک نیا کھیل شروع کر دیا۔ چین کی ابھرتی ہوئی معاشی قوت کو روکنے کے لئے امریکہ نے بھارت کی سرپرستی شروع کر دی۔بھارت کو دنیا کی بڑی منڈی قرار دے کر اس کے نخرے اٹھائے جانے لگے۔ بھارت نے نیو کلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کی ضد کی تو مان لی گئی۔ کشمیر پر قبضے کی منصوبہ بندی کی اور اس کی آئینی حیثیت کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیا گیا‘ امریکہ کی خاموش تائید کے بنا بھارت ایسا نہیں کر سکتا تھا‘امریکہ نے اپنے پرانے اتحادی اور سٹریٹجک شراکت دار پاکستان کے مفادات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خطے میں ایسا سٹریٹجک اتحاد بنایا جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف تھا۔ اس موقع پر پاکستان نے متبادل راستے کی تلاش کی۔ یہ تلاش سی پیک کی شکل میں سامنے آئی۔سی پیک کی مخالفت بھارت اور امریکہ کا مشترکہ ہدف ہے۔بھارت کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اس کی وجہ سے ہاتھ سے نکل رہے ہیں جبکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ چین سے تجارتی اور راہداری تعلقات مضبوط ہونے سے پاکستان اپنی معاشی و دفاعی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو جائے گا‘ ایسا ہونے کی صورت میں ایک ایٹمی مسلمان ریاست امریکی اثرورسوخ سے آزاد ہو سکتی ہے۔ افغانستان سے امریکہ کسی مناسب سیاسی و انتظامی نظام کی بنیاد رکھے بنا اس وجہ سے نکلا ہے کہ عسکریت پسند گروپ اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی سے بدامنی پھیلے‘ افغان خانہ جنگی سے افغانستان کے ہمسایہ ممالک متاثر ہوں گے اور پورا خطہ انتشار کا شکار ہو کر تجارتی اور معاشی ایجنڈے سے پسپا ہو سکتا ہے۔ اشرف غنی حکومت کی طرف سے پاکستان پر مداخلت کے الزامات اور پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں یکایک اضافہ اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ افواج پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں شہادتیں پیش کر چکی ہیں۔ افغان سرحد بھارتی تخریب کاروں کی گزر گاہ رہی ہے۔ افغانستان میں حالات کشیدہ ہونے کے بعد سرحدوں کو بند کرنے سے تخریبی عناصر کا پاکستان میں داخلہ روکا جا سکے گا۔ افغان صورتحال میں حکومت پاکستان اور سکیورٹی اداروں کا کردار اب تک انتہائی محتاط رہنے کی یہی وجہ ہے کہ وہاں کے معاملات سب سے زیادہ پاکستان کو متاثر کرتے ہیں جہاں اب بھی پندرہ لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں ہمیشہ دشمنوں کے ہاتھ میں کھیلتی آئی ہیں۔ ان تنظیموں کے فعال ہونے کا بلا شبہ خدشہ موجود ہے تاہم پاکستانی قوم اور سکیورٹی اداروں نے جس طرح ماضی میں دہشت گرد عناصر کو ناکام بنایا اس بار بھی درپیش خطرات کا مقابلہ کرکے وطن عزیز کے خلاف پنپتی سازشوں کو خاک میں ملا دیا جائے گا۔