الخدمت فاونڈیشن کے زیر اہتمام پریس کانفرنس میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے جو مناظر دکھائے گئے وہ کئی بار ہم ٹی وی پر دیکھ چکے تھے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی یہ سوچ آئی کہ کیا ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ہم واقعی ان مصیبت زدہ لوگوں کی بے بسی محسوس کر سکتے ہیں۔ کبھی ہوا کرتا تھا کہ پاکستان میں اور کچھ نہیں تو غم سانجھے ہوتے تھے۔ اس بار شاید اس کھاتے میں بھی ہم خسارے میں رہے۔ اب ہمارے جذبات بھی سرد اور بے حس ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں اگر دینی جماعتوں کے فلاح و بہبود کا وسیع اور مضبوط نیٹ ورک نہ ہوتا تو غالبا موجودہ سیلاب سے ہونے والے نقصان کی شرح تخمینے سے کئی گنا زیادہ ہوتی۔ جب 2005 کا زلزلہ آیا تو سب سے پہلے امدادی سامان لے کر جو تنظیم بالا کوٹ پہنچی وہ جماعت الدعوۃ تھی۔ اسی طرح-11 2010 کے سیلاب میں بھی دینی فلاحی اداروں نے اہم کردار ادا کیا۔ مہذب ممالک میں قدرتی آفات کے بعد انفراسٹکچر کی ان خامیوں کو دور کیا جاتا ہے جو سب سے زیادہ نقصان کا باعث بنی ہوں۔ ہمارے یہاں ابھی حکومتی سطح پر اس قسم کا احساس ذمہ داری پیدا نہیں ہوا۔ اسی لیے ہر سیلاب میں تقریبا انہی علاقوں میں پہلے سے زیادہ تباہی ہوتی ہے۔اسی طرز پر لوگ مرتے ہیں اور اسی طرز پر نظام زندگی درہم برہم ہوتا ہے۔اس سال تو خیر حالات بد سے بدتر ہو گئے۔اقوام متحدہ کے مطابق یہ سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا۔ جو لوگ ایک رات قبل کروڑ پتی تھے وہ دیوالیہہو گئے۔ جو پہلے ہی سے صفر پر تھے ان میں سے بیشتر مر گئے اور ہزاروں اب ان بیماریوں کے انتظار میں ہیں۔ الخدمت فاونڈیشن نے سیلاب کے دوران دس ارب روپے کے امدادی سامان کے ذریعے آفت زدہ لوگوں کی داد رسی کی۔ اب بحالی و تعمیر کی مد میں پانچ ارب روپے کا پیکج تیار کیا جا چکا ہے۔ تعمیر و ترقی کے اس منصوبے میں سب سے اہم ہدف لوگوں کو صحت مند زندگی دینا اولین ترجیح ہے۔ اس کے لیے الخدمت نے حکومتی سطح پر بھی ادویات کی امپورٹ کے لیے ایسے پرمٹ حاصل کئے ہیں جو صرف بیوروکریسی کے رخنوں کی وجہ سے التوا کا شکار تھے۔ گو یہ دوا صرف ایک ہی بار منگوائی جا سکے گی، لیکن اس طرف پیش قدمی کرنا ہی قابل تعریف ہے۔ اگر چند سو خواتین اس انجیکشن کی عدم دستیابی کی بنا پر دوران زچگی زیادہ خون بہنے کے باعث مر بھی گئیں تو کس نے پوچھنا تھا۔ کس نے سوچنا تھا کہ ایک ماں اپنے پیچھے ایک پورے خاندان کو بے سہارا چھوڑ گئی ہے۔ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا (وزیر مملکت برائے معاشی امور اور ریونیو) کے مطابق سیلاب متاثرہ علاقوں میں تقریبا چھ لاکھ حاملہ خواتین کو صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ اس سنگین صورت حال سے نمٹنے کے لیے الخدمت فاونڈیشن نے فلاحی منصوبہ "ماں محفوظ۔۔خاندان محفوظ" کا اجرا کیا۔ جس کے تحت زچگی کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے درکار بنیادی سہولیات جیسے کہ الٹرا ساونڈ مشین، لیبر روم اور دوران زچگی استعمال ہونے والی ادویات وغیرہ فراہم کی جا رہی ہیں۔طبی سہولیات پہنچانے کا یہ نیٹ ورک فیلڈ ہسپتال، موبائل ہیلتھ یونٹس، میڈیکل وینز اور میڈیکل کیمپس پر مشتمل ہے۔ سندھ میں پانی میں گھرے خاندانوں تک طبی امداد بوٹ کلینک کے ذریعے پہنچائی جا رہی ہے۔ متاثرین کو ہائجین کٹس بھی مہیا کی جارہی ہیں جس میں ٹوتھ برش، صابن پیسٹ ، فوری طبی امداد کی ادویات، پانی صاف کرنے کی دوا اور خواتین کے لیے مخصوص سنیٹری کا سامان شامل ہے۔ اب تک 52 ہزار سے زائد کٹس تقسیم کی جاچکی ہیں۔ الخدمت فاونڈیشن نے تعمیر و ترقی کا پراجیکٹ کمیونٹی انگیجمنٹ کے اصول پر مرتب کیا ہے۔ اس عمل سے تین فائدے ہو نگے۔ ایک تو لوگوں میں اپنی مدد آپ کا جذبہ پیدا ہوگا، دوسرا ان کی عزت نفس محفوظ رہے گی اور تیسرا امداد کے ضائع ہونے کے امکانات کم ہوں گے ۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر محمد عبد الشکور نے بتایا کہ ایک گھرانہ ایسا بھی ہے جن کا بہت کچھ پانی میں بہہ گیا لیکن ان کی تعلیم اور ہنر کی پونجی سے باپ اور بیٹی نے اپنے بچے کچھے گھر میں سکول قائم کیا جہاں کئی سو بچے روزانہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جہاں ہر طرف آفت اور نا امیدی ہو تعلیم کے متعلق سوچنا ہی ہمت کی بات ہے۔ اس گھرانے کی امداد میں الخدمت فاونڈیشن کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہے۔ بعض اوقات لوگ آفت سے بچ جاتے ہیں لیکن بھوک انہیں مار دیتی ہے۔ اس حقیقت کو جانتے ہوئے الخدمت فاونڈیشن نے وسع پیمانے پر خوراک پہنچانے کا انتظام کیا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں 41 باورچی خانے بنائے گئے جہاں سے روزانہ 85,200 افراد کو دو وقت کا کھانا پہنچایا جاتا ہے۔ اسی طرح جو افراد پکانے کی سہولت رکھتے ہیں انہیں خشک راشن دیا جاتا ہے۔ اب تک 182,405 خاندانوں میں راشن تقسیم کیا جا چکا ہے۔ خوراک کی فراہمی ہو لیکن سر پر چھت نہ ہو تو بھی انسان کے لیے زندگی دوبھر ہو جاتی ہے۔ ایسے میں الخدمت فاونڈیشن نے اب تک 59,170 خیمے اور ترپالیں تقسیم کی ہیں۔ سیلاب کے دوران پانی کا مل جانا ہی کافی نہیں اس کا صاف ہونا بھی اسی قدر ضروری ہے۔ ورنہ پیاس تو شائد بجھ جائے لیکن بیماریوں کی صورت مصیبت کا ایک نیا عفریت پیدا ہو جاتا ہے۔ اس نازک صورت حال کو بھانپتے ہوئے الخدمت فاونڈیشن نے پانی کی ٹینکیوں کے ساتھ ساتھ فلٹریشن پلانٹس بھی متاثرہ علاقوں تک پہنچائے۔ اب تک 28 موبائل واٹر فلٹریشن پلانٹس، 106 پانی کی ٹینکیاں اور 167 پانی ذخیرہ کرنے کی ٹینکیاں روزانہ 2,66,300 افراد کو پینے کا صاف پانی فراہم کر رہی ہیں۔ ہر خاندان کو پانی بھرنے کے لیے کنٹینرز دیئے گئے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس جب سیلاب متاثرہ علاقوں کے دورے پر آئے تو انہوں نے الخدمت فاونڈیشن کے صدر دفتر کا دورہ بھی کیا۔ یہ دورہ ہی اس بات کا ثبوت تھا کہ الخدمت فاونڈیشن نے سیلاب متاثرین تک امداد پہنچانے میں اپنی ساری کوشش، محنت اور افرادی قوت لگا دی ہے۔