پہلے مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد میں دھرنے پر وہاں کے پرائمری سکول کے ایک طالب علم کا تبصرہ سن لیجیے۔ دھرنے کے دوران صبح اسلام آباد میں سکول جاتے بچے نے اپنے دوست سے کہا یارا جو دھرنا ایک دن کے لئے سکول بند نہیں کرا سکا وہ وزیر اعظم کا استعفیٰ کیا خاک لے گا۔ اس تبصرے میں اس دھرنا تربیت کا عکس موجود ہے جو گزشتہ کئی برس سے ہمارے قائدین کرام نسل نو کی کر رہے ہیں۔ اب ایک جھلک اس تربیت کی بھی دیکھ لیجئے جو قائد اعظم محمد علی جناح اپنی قوم کے بڑوں اور چھوٹوں کی تحریک پاکستان کے دوران کر رہے تھے۔ ذرا یہ بات ذہن میں رکھیے کہ قائد اعظم کے زمانے میں الیکٹرانک میڈیا تھا نہ سوشل میڈیا۔ لے دے کے مسلمانوں کے دوچار اخبارات تھے، مگر قائد اعظم کے میسج کی خوشبو قریہ قریہ ‘شہر شہر اور کو بکو گئی تھی۔1942ء میں چشتیہ سکول امرتسر کے پانچویں جماعت کے ایک بچے نے قائد اعظم کو خط لکھا تھا۔بچے کا خط بے ساختہ معصوم جذبات سے مہک رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔ مورخہ29-4-42!جناب بابا جی صاحب حضور جناح صاحب، بعد آداب غلامانہ کے عرض ہے کہ میں نے اپنے پھوپھا جان سے سنا کہ حضور جناح نے مسلمانوں کے کام کے واسطے ہر ایک مسلمان سے چندہ مانگا ہے۔ بابا جی صاحب مجھ غلام کو جو ایک پیسہ روزانہ ملتا ہے۔ میں نے اکٹھا کر لیا ہے ۔آپ کوئی فکر نہ کریں۔ آٹھ آنے جمع ہو گئے ہیں۔ ٹکٹ لے کر اس لفافے میں بھیجے ہیں خدا کرے آپ کو مل جائیں۔ یہ آٹھ آنے آپ کو مل جائیں تو میں اور بھی بھیجوں گا۔ آپ کوئی فکر نہ کریں اور جب بڑا ہوں گا اور بھی بہت زیادہ روپے آپ کو بھیجوں گا۔ خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آداب۔ ’’آپ کا غلام عزیز الرحمن طالب علم جماعت پنجم چشتیہ ہائی سکول امرتسر‘‘ ایسا ایک خط نہ تھا۔ قائد اعظم کو دس بارہ برس کے بچوں کے سینکڑوں خطوط وصول ہوتے تھے ۔ وہ حتی الوسغ ان خطوط کا تفصیلی جواب تو نہیں مگر رسیدی جواب ضرور ارسال کرتے تھے۔ چند برس پیشتر ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کی نظر قائد اعظم لائبریری اسلام آباد میں معصوم جذبات کے اس خزانے پر پڑی تو انہوں نے ان مکاتیب اطفال کو کتابی شکل میں مرتب کر کے قائد اعظم کے نام بچوں کے خطوط کے عنوان سے شائع کر دیا۔ کتاب کو بہت پسند کیا گیا۔ یہ خطوط معصوم جذبوں کا بہتا ہوا چشمہ اور مینارہ نور ہیں۔ اس کتاب میں معصوم دلوں کی وہ دھڑکنیں بھی سنائی دیتی ہیں جن کی بدولت بالآخر اللہ نے ہمیں پاکستان جیسے عظیم تحفے سے نوازا۔ ہماری آج کی نسل نو بھی اگر انہی خطوط پر چل سکے تو وہ پاکستان وجود میں آ سکتا ہے جس کا نقشہ قائد اعظم نے پیش کیا تھا۔ بلا شبہ ہماری آرزو بڑی معصوم ہے۔ مگر ہمیں اس تربیت پر بھی ایک نظر ڈالنا ہو گی جو قائد اعظم محمد علی جناح دو دہائیوں تک کرتے رہے۔ قائد اعظم تربیت اور ڈسپلن کے بارے میں ہرگزکوئی کمپرو مائز نہ کرتے تھے۔ قائد اعظم کو جھوٹ‘ بدنظمی بددیانتی اور ڈسپلن کی خلاف ورزی سے سخت نفرت تھی۔ وہ جائز سے جائز ہدف کے لئے بھی ذرا سا بھی ناجائزکام نہ خود کرتے اور نہ اپنے کارکنوں کو اس کی اجازت دیتے۔ وہ چھوٹے یا بڑے ہر چندے کی خود رسید جاری کرتے اور مسلم لیگ کو ملنے والے ایک ایک پیسے کا مکمل حساب کتاب رکھا جاتا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آج ہماری سیاست ہماری تجارت اور ہماری معاشرت سب کی سب جھوٹ پر مبنی ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ ہمارے قائدین کے قول و فعل میں بہت بڑا تضاد ہے۔ تبھی تو قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر تم خود عمل نہیں کرتے‘ جناب عمران خان کے سیاسی و معاشی نعروں کو رکھیے ایک طرف۔ ان کے غیر سیاسی خواب بھی بڑے دل کش تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ قومیں سنگ و خشت سے نہیں افکار و کردار سے بنتی ہیں۔ ان کا بلند بانگ دعویٰ تھا کہ وہ کردار سازی اور قوم سازی پر بڑی توجہ دیں گے۔ قوم سازی کے لئے انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ یکساں نصاب تعلیم رائج کریں گے۔ ان کا یہ بھی نعرہ تھا کہ وہ زندگی کی رتھ میں جتنے بچوں کو وہاں سے نکال کر قلم و کتاب کی دنیا میں لے جائیں گے اور تعلیم سے محروم اڑھائی کروڑ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں گے۔ نوجوانوں کی تربیت کا عکس آپ دیکھنا چاہیں تو سوشل میڈیا پر دیکھیے۔ مجھے تو یہ تربیت دیکھنے کا یارا نہیں۔ نظریاتی یا سیاسی مخالفین کی کردار کشی کے لئے ہر طرح کی الزام تراشی کی جاتی ہے۔ اکثر پوسٹوں میں جو زبان استعمال کی جاتی ہے اسے آپ پڑھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔ اگر جناب عمران خان فی الواقع کردار سازی میں دل چسپی رکھتے تھے تو پھر اپنے سارے نہ سہی چند وزیروں کو یہ کام سونپ دیتے کہ وہ خود بھی حسن کلام سے کام لیں اور نسل نو کو بھی یہی طرز کلام اپنانے کی تلقین کریں۔ اگر خان صاحب فی الحقیقت قوم سازی کا کھٹن مشن لے کر آ گے بڑھنا چاہتے تھے تو وہ ٹیلی ویژن چینلوں سے اپیل کرتے کہ وہ سیاسی و تفریحی پروگراموں کے ساتھ ساتھ۔ ایسے پروگرام بھی پیش کریں۔ جناب عمران خان دنیا کے جس ملک میں جاتے ہیں وہاں سے کوئی اچھی بات ہی سیکھ کر آتے ہیں۔ یقینا خاں صاحب کے علم میں ہو گا کہ اکثر یورپی ‘ امریکی اور جاپانی سکولوں میں کنڈر گارٹن سے ہی بچوں کو حسن کلام‘ صدق معال‘ ڈسپلن ‘ حفظان صحت، صفائی ستھرائی اور حسن آداب کی تربیت دی جاتی ہے۔ لہٰذا جونہی کسی بھی عوامی جگہ پر ایک سے دو بچے ہوتے ہیں وہ فی الفور قطار بنا لیتے ہیں۔ باقی تو چھوڑیے اے ٹی ایم مشین کے کیبن میں جانے والا ہر شخص پڑھا لکھا ہوتا ہے۔ وہاں جا کر اپنی قوم کی تربیت کا حال دیکھ لیجیے۔ ردی کی ٹوکری خالی پڑی ہو گی اور فرش پر مشین سے نکلنے والی رسیدوں کا ڈھیر لگا ہو گا۔ جناب عمران خان دینی مدارس کو مین سٹریم میں لانے کے لئے اکثر تقاریر کرتے رہتے ہیں۔ وہ ضرور انہیں قومی دھارے میں لائیں مگر دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ وغیرہ نے مسلسل دو ہفتوں تک اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے دوران جس حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسے جواباً مین اسٹریم غریب کلاس اور ایلیٹ کلاس سکولوں میں بھی اختیار کر لیں۔ اگر جناب خان صاحب قائد اعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آٹھ آنے چندہ دینے والے با اخلاق و باکردار بچے تیار کرجائیں تو پاکستانی تاریخ میں ان کا یہ کارنامہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔