بالآخر عمران خان مسند اقتدار پر بیٹھ گئے، پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میںشہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کا رویہ انتہائی افسوسناک رہا، یہ دن اپنی شکست کا بدلہ چکانے کا دن نہیں تھا، عمران خان کے قومی اسمبلی میں پہلے خطاب میں تلخیوں کا موجب بھی یہی رویہ بنا، ن لیگ کے تیس سالہ اقتدار میں اس کے جو کرتوت رہے ان کے باوجود ہارنے کیلئے شہباز شریف کے چھیانوے ووٹ غنیمت تھے، اپوزیشن لیڈر جب تنہا تنہا، بجھے بجھے اور سر جھکائے ایوان میں داخل ہوئے اور جس بے دلی سے انہوں نے عمران خان اور بلاول بھٹو سے ہاتھ ملایا، میری سمجھ میں اسی وقت آگیا تھا کہ اقتدار سے بے دخلی نے انہیں مضمحل بنا دیا ہے، ایک صحافی نے ان سے پوچھا ، کیا آج سینچری بنا سکیں گے؟ ان کا جواب تھا، میچ فکس ہو تو سینچری نہیں بنا کرتی۔ ایوان کی کارروائی شروع ہوتے ہی ن لیگیوں نے جو بندر تماشہ لگایاوہ پارلیمانی تاریخ پر ایک دھبہ تھا، تحریک انصاف کو اس کا جواب نہیں دینا چاہئے تھا، بلاول بھٹو نے بھی سب کچھ کہا مگر سیاسی انداز میں، انہوں نے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کو زندہ کر دیا، ایک اور بھٹو پارلیمنٹ میں دکھائی اور سنائی دیا، بلاول بھٹو کا یہ فقرہ بہت وزنی تھا کہ خان صاحب ! اب آپ پورے پاکستان کے عوام کے وزیر اعظم ہیں،اب آپ ان لوگوں کے بھی وزیر اعظم ہیں جنہیں آپ نے گدھے اور زندہ لاشیں کہا تھا وہ جاتے جاتے عمران خان کو پرائم منسٹر سلیکٹ بھی کہہ گئے اور اپنے اس فقرے کی عمران خان سے داد بھی پا گئے ۔شہباز شریف یاد رکھیں کہ وہ بلاول بھٹو والا فقرہ بول کر کبھی داد نہیںپا سکیں گے کیونکہ ن لیگ تو خود تیس سال تک سلیکٹ گورنمنٹ رہی ہے‘ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ن لیگ کو رونے دھونے سے کچھ نہیں ملے گا ، اگر اس نے سیاست میں رہنا ہے تو اسے نئی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کی دعا مانگنا ہوگی اور رونے والے بچوں کا کردار ادا نہیں کرناہوگا، ،سپیکر کے ڈائس کے سامنے نواز شریف کی تصویریں لہرا کر نواز شریف کو واپس سیاست اور اقتدار میں لانے کا زمانہ لد گیا، پاکستان میں اب دو جماعتی نظام کا زمانہ واپس آنے والا نہیں۔عید قربان یوں تو ڈھائی دن کی ہوتی ہے ، مگر اس بار عید کی قربانی اگلی بڑی عید تک ہو سکے گی، ڈھائے دن بعد قربان ہونے والے بکروں کو اپنی اپنی باری کا علم بھی ہے ۔بائیس کروڑ عوام کا پاکستان در حقیقت بائیس کروڑ لوگوں کا پاکستان نہیں ہے، اس تعداد سے اکیاون فیصد عورتوں اور بچوں کی تعداد کو مائنس کرکے دیکھنا ہوگا، اس مملکت خداداد میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اس پر بجا طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہیں آزادی ہی نہیں مکمل حکومتی تحفظ کی ضرورت ہے، عمران خان کے پڑھنے کیلئے میں آج کے کالم میں ماضی کا ایک قصہ شامل کر رہا ہوں ، یہ کہانی نہیں ایک حقیقت ہے جو اپنے انجام کوپہنچنا چاہئے۔ ٭٭٭٭٭ جاوید اقبال نام کے ایک پولیس مخبر کی کہانی جس نے میرے سامنے سرینڈر کیا تھا ، اس نے سو مقتول بچوں کی تصاویر کے ساتھ مجھے اپنے جرائم کا اعتراف نامہ بھجوایا تھا۔،،،،،میں نے خط ملتے ہی جاوید اقبال کو اپنے آفس میں بلوا لیا، وہ میری موجودگی میں رضاکارانہ طور پر اپنی گرفتاری دینا چاہتا تھا۔ میں نے اس کی آمد سے پہلے پولیس بھی بلوا لی تھی ،سوبچوں کے قاتل سے باتیں کرتے کرتے میری جاسوسی کی رگ پھڑکی کہ وہ یہاں بیٹھے بیٹھے خود کشی بھی تو کر سکتا ہے، چنانچہ میں نے اس کی جسمانی تلاشی لی، اس نے اپنے جسم کے مختلف حصوں میں مختلف طریقوں سے بھاری مقدار میں نیند کی گولیاں چھپا رکھی تھیں تاکہ وقت ضرورت وہ آسان موت مر سکے۔ اسی دوران جبکہ ہمارا ٹیلنٹڈ کرائم رپورٹر جمیل چشتی اس سے سوال جواب کر رہا تھا۔ IB CHIEF جنرل شمیم وائیں نے مجھے فون کرکے کہا کہ ہمارے علم میں ہے کہ سو معصوم بچوں کا قاتل آپ کی تحویل میں ہے، جنرل شمیم وائیں نے مجھےADVICE کیا کہ میں اسے پولیس کے حوالے نہ کروں، کیونکہ پولیس اسے کسی بھی بہانے سے قتل کر دے گی تاکہ حسب روایت اسے اس اہم کیس کی تفتیش نہ کرنا پڑے، میں نے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے جاوید اقبال کو ملٹری انٹیلیجنس کے حوالے کردیا۔ جاوید اقبال بچوں کو قتل کرکے ان کی لاشیں تیزاب کے ڈرموں میں پھینک دیا کرتا تھا۔ سو سے زیادہ بچوں کے جوتے اور جرابیں اس نے اپنی قتل گاہ میں سنبھال رکھی تھیں، وہ گھروں سے بھاگے ہوئے بچوں کو بہلا پھسلا کر اپنے گھر لے جاتا۔قتل سے پہلے وہ ان بچوں سے زیادتی بھی کرتا اور ان کی پاسپورٹ سائز تصویریں بھی محفوظ کر لیتا۔پھر پتہ نہیں کیسے جاوید اقبال MI سے پولیس کی تحویل میں چلا گیا۔ پولیس نے اپنی روایتی تفتیش اور اس کے مکمل اعترافات کے بعد کیس عدالت کے سامنے رکھ دیا۔ تھوڑی سی سماعت کے بعد ہمارے دوست ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اللہ بخش رانجھا نے نجانے کس حالت مستی میں اسے عجیب و غریب سزا سنا دی۔ حکم صادر ہوا کہ اسے سو بار پھانسی دے کر اس کی لاش کے ٹکڑے کر دیے جائیں اور بوٹیاں مینار پاکستان کی اونچائی سے نیچے اچھالی جائیں تاکہ انہیں کوے اورگدھیں کھا جائیں۔ اسے کوٹ لکھپت جیل میں بھجوا دیا گیا۔ جہاں سے کچھ عرصے بعد (8 اکتوبر2001) خبر آگئی کہ جاوید اقبال نے جیل میں خود کشی کر لی ہے (اسے یقینا جیل میں تشدد کرکے مار دیا گیا ہوگا)۔ یوں انسانی تاریخ کی وحشتوں کی ایک بڑی کہانی زمین کی گہرائیوں میں دفن ہو گئی‘ یہ تھی ایک جاوید اقبال کی کہانی۔۔ ایک جاوید اقبال مر گیا، سینکڑوں ہزاروں ابھی زندہ ہیں، ہزاروں لاکھوں بچے اور عورتیں آج بھی ان درندوں کی وحشتوں کے نشانے پر ہیں انہیں تحفظ دینا بھی عمران خان کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہونا چاہئے۔