قومی اسمبلی کے نو منتخب ارکان آج حلف اٹھا رہے ہیں ۔سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا چناؤ بھی ہو جائے گا اور توقع ہے کہ18اگست کو صدر ممنون حسین عمران خان سے وزارت عظمیٰ کا حلف لے لیں گے ۔تحریک انصاف کی اپیل پر صدر ممنون حسین نے اپنا برطانیہ کا دورہ موخر کر دیا ہے ،ممنون حسین خود بھی8ستمبر کو اپنی آئینی میعاد پوری کر کے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ نہ جانے ایسے موقع پر جبکہ اسمبلیاں انتخابات کے ذریعے معرض وجود میں آ رہی ہیں ،نئے وزیراعظم اور کابینہ نے حلف اٹھانا ہے انھیں غیر ملکی دورے کی کیا سوجھی ۔غالبا ً وہ بھی بطور صدر جاتی بہارکے بلے لوٹنا چاہتے تھے ۔نئی پارلیمنٹ اپنی پیشرو اسمبلیوں سے قدرے مختلف ہو گی کیونکہ پاکستان میں اتنی بھاری بھر کم اپوزیشن جس کا سامنا حکمران جماعت کو کرنا ہو گا ،شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں تھی ۔یہ محض ایک پارٹی کی حکومت کی تبدیلی نہیں ہے، ایک ایسی جماعت برسر اقتدار آ رہی ہے جس نے اس سے پہلے وفاقی سطح پر اقتدار کا مزہ نہیں چکھا اور وطن عزیز کے جسد سیاست میںایک بنیادی تبدیلی کی مظہر ہے۔80اور90کی دہائی میں میاں نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا طوطی بولتا تھا اور محترمہ کی شہادت کے بعد آصف زرداری نے ان کی جگہ سنبھال لی ۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ملک میں دو جماعتی سسٹم کی علامت تھیں لیکن آہستہ آہستہ سیاسی زمین پیپلزپارٹی کے لیے تنگ ہوتی گئی حتیٰ کہ 2018ء کے انتخابات نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ اس کا وجود اب سندھ کے حوالے سے ہے ۔خاص طور پر حالیہ ایک برس سے کچھ زائد عرصے میں مسلم لیگ (ن) کا مکو ٹھپنے کی پوری کوشش کی گئی اور اس میں نوازشریف کا مغلیہ طرز حکمرانی آخری کیل ثابت ہوا۔لیکن تمام تر پاپڑ بیلنے کے باوجود پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف سے چند نشستیں زیادہ حاصل کی ہیںاور وفاقی سطح پر بھی اس کے 64 ارکان منتخب اسمبلی منتخب ہو گئے ہیں ۔ گویا کہ اب بھی پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی میں تعداد کے لحاظ سے سابق حکمران جماعت’ گورنمنٹ ان ویٹنگ ‘ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے بھی سندھ اور پنجاب سے منتخب ہونے کی بنا پر قومی اسمبلی میں 43 ارکان ہیں ۔اگر عمران خان نے بردباری‘ کچھ لو اور دو سے کام نہ لیا تو یہ ہیوی ویٹ اپوزیشن ان کے لیے درد سر بنی رہے گی اوران کے پہلے سو دن میں تبدیلی لانے کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ عمران خان نے تو پارلیمنٹ سے باہر اور اندر ان کی حکومت کو سانس نہیں لینے دیا ۔حال ہی میں مدت پوری کرنے والی قومی اسمبلی میں نوازشریف قریبا ً چار برس بطور وزیراعظم برسرا قتدار رہے لیکن وہ پارلیمنٹ میں آنے سے کتراتے رہے اورشاذ ہی قدم رنجہ فرماتے تھے کیونکہ اسمبلی میں تو وزیراعظم کو حکومتی اور اپوزیشن ارکان سے برابری کی بنیاد پر ہی ڈیل کرنا ہوتا ہے ۔شاید ان کا شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اس کی اجازت نہیںدیتا تھا ۔کچھ یہی حال پنجاب میں تھا جہاں شہبازشریف نے ایک دہائی تک بلا شرکت غیرے حکومت کی ۔انھوں نے پنجاب اسمبلی اپنے معتمد خصوصی رانا ثناء اللہ اور کسی حد تک حمزہ شہباز شریف پر چھوڑی ہوئی تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کس قسم کی اپوزیشن کرتی ہے ۔ شہباز شریف بطور لیڈر آف اپوزیشن کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ یہ اسمبلی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں بہت سے نئے چہرے ہیں ۔عمران خان بطور قائد ایوان پہلی بار اسمبلی میں بیٹھ رہے ہیں ۔آصف زرداری بھی منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں آئے ہیں،سب سے بڑھ کر نوجوان بلاول بھٹو جو پارٹی کے چیئرپرسن بھی ہیں پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں ۔ انھوں نے اپنی انتخا بی مہم کے دوران اچھا تاثر چھوڑا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں کیسے اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ اس پارلیمنٹ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ بعض پرانے گرگے بالکل صاف ہو گئے ہیں ۔جمعیت علمائے اسلام (ف ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو دونوں حلقوںسے عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑا اور اب’’دھاندلی دھاندلی ‘‘کی صدا لگا کر وہ اور ان کی جماعت سراپا احتجاج ہیں اور کچھ یہی حال جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کا ہے۔حالیہ انتخابات میں وٹو خاندان کا بھی صفایا ہو گیا ہے ۔سابق وزیر اعلیٰ اور بزعم خود جوڑ توڑ کے ماہر منظور وٹو اس مرتبہ مات کھا گئے ۔نہ جانے آصف زرداری نے کیا سوچ کر انھیں پیپلزپارٹی پنجاب کا صدر بنایا تھا کیونکہ نہ تو وہ جیالے تھے اور نہ ہی جیالوں نے انھیں قبول کیا اور بالآخر انھوں نے آزاد‘ ان کے صاحبزادے اور بیٹی نے تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا اور ہار گئے ۔حتیٰ کہ ان کے داماد بلال ورک جو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر آسانی سے منتخب ہو جاتے تھے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر شکست کھا گئے ۔ اپوزیشن کی دھاندلی کے خلاف تحریک کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دونوں نے یہ پالیسی بیان دیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیں گے ۔اس لحاظ سے یہ خوش آئند آغاز ہے ۔عمران خان کو بھی چاہیے کہ اپوزیشن کو آن بورڈ رکھیں اور حالیہ انتخابات میں مبینہ بے قاعدگیوں کے بارے میں ان کی شکایات کا مداوا کرنے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ مقام شکر ہے کہ انتخابات میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے پارلیما نی کمیشن بنانے پر تحریک انصاف کوکوئی اعتراض نہیں ۔ بقول عمران خان پاکستان میں اکانومی اور گورننس دو سب سے بڑے مسائل ہیں ۔نامزد وزیر خزانہ اسد عمر نے یہ تشویشناک انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کو ہر ماہ دو ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہو رہا ہے یعنی درآمدات اور برآمدات میں تفاوت ۔اسد عمر نے یہ بھی بتایا کہ جب پانچ سال قبل مسلم لیگ (ن) کی حکومت اقتدار میں آئی تھی تو یہ تجارتی خسارہ سالانہ دو ارب ڈالر تھا۔اس لحاظ سے یہ بارہ گنا بڑھ چکا ہے ۔نامزد وزیر خزانہ نے تسلیم کیا کہ یہ صورتحال زیادہ دیر تک نہیںچل سکتی ،اس کا مداوا کرنا ہو گا ۔ شاید اسی بنا پر اسد عمر کا کہنا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے کم از کم بارہ ارب ڈالر کا قرضہ لینا پڑ سکتا ہے ۔ دوسری طرف امریکہ آئی ایم ایف کے’ بیل آؤٹ پیکیج‘ کی شدید مخالفت کر رہا ہے۔ قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو متنبہ کر چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کا قرضہ سی پیک کے حوالے سے چین کے قرضے اتارنے کے لیے استعمال ہو گا اور اب ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک دونوں پارٹیوں کے سولہ سینیٹروں نے یہ مشترکہ بیان دیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو آئی ایم ایف کا پیکیج بلا ک کر دینا چاہیے کیونکہ یہ چین کے واجب الادا قرضے ادا کر نے کے لیے استعمال ہو گا۔یہ صورتحال انتہائی تشویشنا ک ہے۔ عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران نئے پاکستان میں کشکول توڑ دینے اور غیر ضروری اخراجات کے معاملے میں کفایت شعاری کرنے کا پروگرام دیا تھا ۔لیکن سرمنڈاتے ہی اولے پڑے‘ وطن عزیز کو آگے’ اقتصادی ایمرجنسی‘ کا سامنا ہے جس سے نبٹنے کے لیے نئی حکومت کو کشکول توڑنے کی بجائے نئے قرضے لینا ہوں گے اور اس سلسلے میں اپوزیشن سے تعاون سمیت سخت کاوشیں کرنا پڑیں گی ۔