’’چین نے مسعود اظہر کے خلاف قرارداد پھر رکوا دی‘‘ بدھ کی شب اسکرینوںاور جمعرات کی صبح اخباروں کی شہ سرخیوں پر وزارت خارجہ کے بابو اسے ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دے کر اگر شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرنے پر تلے ہیں تو اسے وطن عزیز کی بد قسمتی ہی کہا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ خوف بھی لاحق ہوتا ہے کہ ابھی تک ریاستی اداروں میں ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو ’’کالعدم دہشت گرد‘‘ تنظیموں کو اپنا ایک اثاثہ سمجھتا ہے۔ایک مخصوص سوچ کے یہ مہم جو عناصر لگتا ہے ماضی سے اب بھی سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ ’’جیشِ محمد‘‘ کے حوالے سے بات اگر محض ازلی دشمن ملک بھارت کے تواتر سے لگائے جانے والے الزامات کی ہوتی تو اتنا تشویشناک امر نہ ہوتا۔مگر بدھ کو سلامتی کونسل میں جیش محمد کے خلاف قرارداد پیش کرنے والے ممالک امریکہ ،برطانیہ اور فرانس ہیں۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت نے دنیا کی تین بڑی مغربی طاقتوں کو ’’کنونس‘‘ کرلیا ہے کہ ہماری سرزمین جیش محمد سمیت کالعدم تنظیموں کی قیادت کو اب بھی پناہ دئیے ہوئے ہے۔جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید کے بعد جیش محمد کے بانی مولانا مسعود اظہر کا دہشت گردی کے حوالے سے عالمی سطح پر ڈنکا بجنا کوئی معمولی بات نہیں کہ خود وطن عزیز میں عوام کی اکثریت اس بات سے نا آشنا ہے کہ جنوبی پنجاب کے ایک نسبتاً پسماندہ شہر بہاولپور کے مدرسے میںمورچہ لگائے مولانا مسعود اظہر عالمی سطح پر کیسے ایک دیو مالائی کردار بن گئے ۔ جیش ِ محمد اور دیگر کالعدم تنظیموں کے القاعدہ اور طالبان قیادت سے رابطے کے متعلق میرے ہاتھ میں ایک متنازعہ دستاویزی حوالہ ہے ۔ میری مراد سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی کتاب ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ سے ہے۔ جس میں موصوف جنرل نے انتہائی تفصیل سے کالعدم تنظیموں کے پاکستان میں نیٹ ورک کے سارے ناقابل ِ تردید ثبوت پیش کئے ہیں۔جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں جیش محمد کے بانی مولانا مسعود اظہر کا تانا بانا عمر سعید شیخ سے جوڑاہے۔جو جنوری 2002ء میں وال اسٹریٹ جنرل سے تعلق رکھنے والے صحافی ڈینیل پرل کے کراچی میں بہیمانہ قتل کا ماسٹر مائنڈ تھا۔عمر شیخ ،جودہائی اوپر سے ان دنوں حیدر آباد جیل کی کال کوٹھری میں اپنی سزائے موت پر عملدر آمد کا منتظر ہے،اُن سینکڑوں تعلیم یافتہ پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں میں سے تھا جو افغان جہاد سے متاثر ہوکر نوے کی دہائی میں پاکستان آگئے تھے ۔اور پھر پاکستان میں آزادانہ دہشت گردی میں سرگرم عمل جہادی تنظیموں کی قیادت سے رابطہ کر کے افغانستان کے ان دہشت گر دی کے تربیتی کیمپوں میں پہنچ گئے ۔جہاں براہ راست ان کا رابطہ القاعدہ کے قائد اسامہ بن لادن اور طالبان قیادت سے ہوا۔ میں اس تفصیل میں جا کر کالم کو طوالت نہیں دیناچاہتا جس میں جنرل پرویز مشرف نے عمر شیخ کی سرگرمیوں اور رابطوں کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح لندن اسکول آف اکنامکس میں پڑھنے والا یہ جذباتی، جہادی نوجوان ابتداء میں برطانوی خفیہ ایجنسی MI-6میں بھرتی ہوا۔MI-6نے اسے بوسنیا میں حملوں کے خلاف مظاہروں میں شرکت کے لئے کوسوو و بھیجا۔ عمر شیخ کے لئے ایک پر جوش مسلمان ہونے کے سبب زیادہ کشش ڈیورنڈ لائن کے اِس طرف اور اُس طرف ہونے والی جہادی سرگرمیوں پہ زیادہ تھی ۔ بوسنیا سے واپسی پر وہ پاکستان آیا اور یہیں سے وہ حرکت اسلامی کے مولانا عبد الجبار سے ملا،جس کے مینٹور مولانا مسعود اظہر تھے ۔ جو اُن دنوں بھارت کی قید میںتھے۔ مولانا مسعود اظہر اُن جہادیوں میں سے تھے ۔جو اشتراکی روس کے خاتمے کے بعد افغان جہادی تنظیموں کو اس بات پر راغب کر رہے تھے کہ انہیں بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ کشمیر ی محاذ پر مستقل کردینا چاہئے۔یوں مولانا مسعود اظہر اُن سینکڑوں پاکستانی جہادیوں میں شامل ہوگئے۔جو کشمیرمیں سرگرم جہاد ی تنظیموں سے رابطے میں آکر بارڈر کراس کر کے سرینگر جا پہنچے ۔ مولانا مسعود اظہر فروری 1994ء میں گرفتار ہوئے اور انہیں باغیانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزام میں سات سال کی قید ہوئی تھی ۔ مولانا مسعود اظہر کے جہادی ساتھی مولانا عبدالجبار نے عمر شیخ کو خوست بھیج دیا تاکہ وہ گوریلا جنگ کی تربیت لے کر جہادی جتھے میں شامل ہوجائے۔ عمر شیخ کے پاس کیونکہ برطانوی پاسپورٹ تھا۔ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مولانا عبدالجبار نے عمر شیخ کو مولانا مسعود اظہر کو بھارتی قید سے چھڑانے کے منصوبے پر بھیجا۔مگر خود عمر شیخ اپنی سرگرمیوں کے سبب ستمبر 1994ء میں گرفتار کرلیا گیا۔ہندوستان ،خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں جہادی نیٹ ورک اتنا مضبوط ہوچکا تھا کہ اُس نے نومبر 1994ء میں کھٹمنڈو سے ایک بھارتی جہاز اغوا کیا۔اور اسے قندھار لے جانے پر مجبور کردیا۔ اغوا کرنے والوں نے مطالبہ کیا کہ عمر شیخ اورمولانا مسعود اظہر رہا کیا جائے۔ اُس وقت بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ تھے ،جنہوں نے بہرحال ایک بڑی خوں ریزی کئے بغیر۔عمر شیخ اورمولانا مسعود اظہر کو رہا کرکے قندھار ،چمن بارڈر پر آزاد کردیا۔اس بات کے واضح ثبوت نہیں ملتے کہ بعد میں عمر شیخ اور مولانا مسعود اظہر ایک ہی جہادی تنظیم سے جڑے ہوئے تھے کہ مولانا مسعود اظہر کے مقابلے میں عمر شیخ میں خودنمائی اور مہم جوئی کا عنصر زیادہ غالب تھا اور پھر اسی سبب جنوری 2002ء میں یہ خبر ملی کہ امریکی صحافی ڈینیل پرل جہادی تنظیموں پر ایک کتاب لکھنے میں مصروف ہے تو اس کے لئے یہ ایک اچھا موقع تھا کہ ایک ہائی پروفائل امریکی کو اغوا کر کے چند بڑے مطالبے اور مقاصد حاصل کئے جائیں۔ جہاں تک مولانا مسعود اظہر کا تعلق ہے تو اس دوران انہوں نے جامعہ بنوریہ مسجد کے ناظم مفتی محمد شامزئی کے ساتھ مل کر ’’جیش محمد‘‘ کی بنیاد رکھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مولانا مسعود اظہر اور مفتی شامزئی نے اپنے سینکڑوں مسلح ساتھیوں کے ساتھ کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میںجیش محمد کے قیام اور اُس کے مستقبل کے مقاصد پر تفصیلی بیان دیا۔ ایک ہائی پروفائل ’’جہادی‘‘ کا جو بھارتی قید میں بھی رہا اس طرح آزادانہ اپنی تنظیم کا اعلان کرنا مجھ جیسے صحافت کے طالب علم کے لئے حیرت کا باعث تھا۔یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ مولانا مسعود اظہر جس وقت جیش محمد کا اعلان کر رہے تھے اُس وقت ہمارے جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔اپنی کتاب میں جنرل صاحب نے یہ وضاحت نہیں کہ ان جہادی تنظیموں کے اس سارے نیٹ ورک سے آگہی کے باوجود انہوں نے جیش محمد سمیت ان تنظیموں کے خلاف کوئی کاروائی کیوں نہیںکی۔ادھر دہائی اوپر سے جیش محمد اور اُن کے بانی مولانا مسعود اظہر نے خود کو اور اپنی سرگرمیوں کو جماعت الدعوۃ کے قائد حافظ سعید کے مقابلے میں ’’میڈیا‘‘ سے دور ہی رکھا ۔خود مولانا مسعود اظہر کے بارے میں بھی یہ خبریں آرہی ہیں کہ ان کی طبیعت ناساز ہے اور وہ عملاً خود کو جہاد ی سرگرمیوں سے دور رکھے ہوئے ہیں۔جیش محمد اور اس کے بانی کے بارے میں دنیا کے سب سے بڑے فورم ’’سلامتی کونسل‘‘میں قرارداد نے تحریک انصاف کی حکومت کو شدید مشکل میں ضرور ڈال دیا ہے کہ یوں بھی یہ مودی کا بھارت ہے۔ جس کے ان دنوں ’’کابل‘‘ سے بھی بڑے قریبی تعلقات ہیں اور دونوں اس پر تلے ہوئے ہیں کہ ساری دنیا کے سامنے پاکستان کو ایک بدمعاش اسٹیٹ قرار دیا جائے۔سیاسی و عسکری قیادت کو بہرحال سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد کو ہلکا نہیں لینا چاہئے یوں بھی چند مہم جو جہادیوں کیلئے توپاکستانی ریاست کو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا۔(ختم شدہ)